ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿74﴾
‏ [جالندھری]‏ پھر اسکے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گر پڑتے ہیں اور خدا تمہارے عملوں سے بےخبر نہیں ‏
تفسیر
پتھر دل لوگ 
اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے۔ اسی لئے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا آیت (الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ وما نزل من الحق ولا یکونوا کالذین اوتوا الکتاب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم و کثیر منھم فاسقون) یعنی کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالٰی کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے آیت (تسبح لہ السموت السبع والارض ومن فیھن وان من شئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم انہ کان حلیما غفورا) یعنی ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالٰی کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ اللہ تعالٰی حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے۔ ابو علی جبانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بےدلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے واللہ اعلم۔ نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے یریدان ینقض یعنی دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا۔ رازی قرطبی وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالٰی جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے دیکھئے اس کا فرمان ہے آیت (انا عرضنا الامانتہ) الخ یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالٰی کی تسبیح بیان کرتی ہے اور جگہ ہے آیت (والنجم والشجر یسجدان یعنی اکاس بیل اور درخت اللہ تعالٰی کو سجدہ کرتے ہیں اور فرمایا یتقیاظلالہ الخ اور فرمایا آیت (قالتا اتینا طائعین) زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے آیت (وقالوا لجلودھم) یعنی گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر۔ آیت میں لفظ"او" جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی تو کہتے ہیں کہ یہ تبخیر کے لئے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت۔ رازی نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لئے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں واللہ اعلم۔ 
اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لئے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی اس کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جیسے آیت (لاتطع منھم اثما او کفورا) میں اور آیت (عذرا اور نذرا) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لئے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے آیت (کخشیتہ اللہ اواشد خشیتہ) میں اور آیت (ارسلناہ الی مائتہ الف او یزیدون) میں اور آیت (فکان قاب قوسین او ادنی) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لئے ایسا کلام کرتے ہیں قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت (وانا اویاکم لعلی ھدی او فی ضلال مبین) یعنی ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لئے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے آیت (کمثل الذی استوقد نارا) پھر فرمایا آیت (او کصیب) اور فرمایا ہے کسراب پھر فرمایا آیت (او کظلمات) مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے واللہ اعلم۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے بزار میں حضرت انس سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا۔ دل کا سخت ہو جانا۔ امیدوں کا بڑھ جانا۔ لالچی بن جانا۔