وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿89﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب خدا کے ہاں سے انکے پاس کتاب آئی جو ان کی آسمانی کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے اور وہ پہلے (ہمیشہ) کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے تو جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے جب ان کے پاس آ پہنچی تو اس سے کافر ہوگئے پس کافروں پر خدا کی لعنت ‏
تفسیر
انکار کا سبب 
جب کبھی یہودیوں اور عرب کے مشرکین کے درمیان لڑائی ہوتی تو یہود کہا کرتے تھے کہ عنقریب اللہ تعالٰی کی سچی کتاب لے کر اللہ عزوجل کے ایک عظیم الشان پیغمبر تشریف لانے والے ہیں ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں ایسا قتل و غارت کریں گے کہ تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اللہ تعالٰی سے دعائیں کیا کرتے تھے کہا اے اللہ تو اس نبی کو جلد بھیج جس کی صفتیں ہم توراۃ میں پڑھتی ہیں تاکہ ہم ان پر ایمان لا کر ان کے ساتھ مل کر اپنا بازو مضبوط کر کے تیرے دشمنوں سے انتقام لیں۔ مشرکوں سے کہا کرتے تھے کہ اس نبی کا زمانہ اب بالکل قریب آ گیا ہے لیکن جس وقت حضور مبعوث ہوئے تمام نشانیاں آپ میں دیکھ لیں۔ پہچان بھی لیا۔ دل سے قائل بھی ہو گئے۔ مگر چونکہ آپ عرب میں سے تھے۔ حسد کیا اور آپ کی نبوت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالٰی کے لعنت یافتہ ہو گئے بلکہ وہ مشرکین مدینہ جو ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں سنتے چلے آتے تھے انہیں تو ایمان نصیب ہوا اور بالاخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر وہ یہود پر غالب آ گئے ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل حضرت بشر بن براء حضرت داؤد بن سلمہ نے ان یہود مدینہ سے کہا بھی کہ تم تو ہمارے شرک کی حالت میں ہم سے حضور نبوت کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ ہمیں ڈرایا کرتے تھے اور اب جب کہ وہ عام اوصاف جو تم حضرت کے بیان کرتے تھے وہ تمام اوصاف آپ میں ہیں۔ پھر تم خود ایمان کیوں نہیں لاتے؟ آپ کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ تو سلام بن مشکم نے جواب دیا کہ ہم ان کے بارہ میں نہیں کہتے تھے۔ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ پہلے تو مانتے تھے منتظر بھی تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد حسد اور تکبر سے اپنی ریاست کے کھوئے جانے کے ڈر سے صاف انکار کر بیٹھے۔