أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿100﴾
‏ [جالندھری]‏ ان لوگوں نے جب جب (خدا سے) عہد واثق کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اسکو (کسی چیز کی طرح) پھینک دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر بے ایمان ہیں ‏
تفسیر
جادو کے جواز اور عدم جواز کی بحث 
سنن میں حدیث ہے کہ جس نے گرہ لگائی اور اس میں پھونکا، اس نے جادو کیا لہذا رازی کا یہ کہنا کہ محققین کا قول یہی ہے یہ بھی ٹھیک نہیں آخر ان محققین کے ایسے اقوال کہاں ہیں؟ ائمہ اسلام میں سے کس نے ایسا کہا ہے؟ پھر آیت (ھل یستوی الذین) آیت کو پیش کرنا بھی نری جرات ہے کیونکہ آیت میں علم سے مراد دینی علم ہے اسی آیت میں شرعی علم والے علماء کی فضیلت بیان ہوئی ہے، پھر ان کا یہ کہنا کہ اسی علم سے کہ اسی سے معجزے کا علم تقابلی حاصل ہوتا ہے یہ تو بالکل واہی محض غلط اور فاسد ہے اس لئے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن پاک ہے جو باطل سے سراسر محفوظ ہے لیکن اس کا معجزہ ماننے کے لیے جادو جاننا ضروری نہیں ہے وہ لوگ جنہیں جادو سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی اسے معجزہ مان گئے صحابہ تابعین ائمہ مسلمین بلکہ عام مسلمان بھی اسے معجزہ مانتے ہیں حالانکہ ان تمام میں سے کوئی ایک بھی جادو جانتا تو کیا جادو کے پاس تک نہیں پھٹکا جادو سیکھا نہ سیکھایا۔ نہ کیا نہ کرایا۔ بلکہ ان سب کاموں کو کفر کہتے رہے پھر یہ دعویٰ کرنا کہ جادو کا جاننا واجب ہے اس لئے کہ جادو کے علم سے معجزہ کا فرق معلوم ہو سکتا ہے اس لئے اس کا سیکھنا واجب۔ کس قدر مہمل دعویٰ ہے۔ 
جادو کی اقسام 
اب جادو کی قسمیں سنئے جنہیں ابو عبداللہ رازی نے بیان کیا ہے (ا) ایک جادو تو ستارہ پرست فرقہ کا ہے وہ سات ستاروں کی نسبت عقیدہ رکھتے ہیں کہ بھلائی برائی انہی کے باعث ہوتی ہے اس لئے ان کی طرف خطاب کے مقرر الفاظ پڑھا کرتے ہیں اور انہیں کی پرستش کرتے ہیں اسی قوم میں حضرت ابراہیم آئے اور انہیں ہدایت کی۔ رازی نے اس فن میں ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام السر المکتوم فی مخاطبہ الشمس والنجوم رکھا ہے ملاحظہ ہو ابن خلکان وغیرہ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے بعد میں اس سے توبہ کر لی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ صرف لوگوں کو اس علم سے آشنا کرنے اور خود کو اس کا عالم ثابت کرنے کیلئے یہ کتاب لکھی تھی ورنہ ان کا اپنا اعتقاد یہ تھا جو سراسر کفر ہے اس کتاب میں ان لوگوں کے طور طریقے لکھے ہیں (2) دوسرا جادو قومی نفس اور قوت واہمہ کے طاقتور لوگوں کا فن ہے وہم اور خیال کا زندگی میں بڑا اثر ہوتا ہے دیکھئے اگر ایک تنگ پل زمین پر رکھ دیا جائے تو اس انسان پر سے بہ آسانی گزر جائے گا لیکن یہی تنگ پل اگر کسی دریا پر ہو تو نہیں گزر سکے گا اس لئے کہ اس وقت خیال ہو گا کہ اب گرا اب گرا تو واہمہ کی کمزوری کے باعث جتنی جگہ پر زمین میں چل پھر سکتا تھا اتنی جگہ پر ایسے ڈر کے وقت نہیں چل سکتا حکیموں اور طبیبوں نے بھی مرعوف (جس کو نکسیر بہنے کی بیماری ہو) شخص کو سرخ چہروں کو دیکھنے سے روک دیا ہے اور مرگی والوں کو زیادہ روشنی والی اور تیز حرکت کرنے والی چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ قوت واہمہ کا ایک خاص اثر طبیعت پر پڑتا ہے عقلمند لوگوں کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ نظر لگتی ہے صحیح حدیث میں بھی آیا ہے کہ نظر کا لگنا حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر ہے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر ہوتی اب اگر نفس قوی ہے تو ظاہری سہاروں اور ظاہری کاموں کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر اتنا قوی نہیں تو پھر اسے آلات کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس قدر نفس کی قوت بڑھتی جائے گی وہ روحانیات میں ترقی کرتا جائے گا اور تاثیر میں بڑھتا جائے گا اور جس قدر یہ قوت کم ہوتی جائے گی اسی قدر گھٹتا جائے گا یہ کیفیت کبھی غذا کی کمی سے اور لوگوں کے میل جول سے ترک کرنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے کبھی تو قوت کو حاصل کر کے انسان نیکی کے کام یعنی شریعت کے مطابق اس سے کام لیتا ہے اس حال کو شریعت کی اصطلاح میں کرامت کہتے ہیں جادو نہیں کہتے اور کبھی اس حال سے باطل میں اور خلاف شرع کاموں میں مدد لیتا ہے اور دین سے دور پڑ جاتا ہے ایسے لوگوں کے ایسے قابل حیرت کاموں سے کسی کو دھوکا کھا کر انہیں ولی نہ سمجھ لینا چاہئے کیونکہ شریعت کے خلاف چلنے والا ولی اللہ نہیں ہو سکتا آپ دیکھتے نہیں کہ صحیح احادیث میں دجال کی بابت کیا کچھ آیا ہے؟ وہ کیسے کیسے خلاف عادت کام کر کے دکھائے گا لیکن ان کی وجہ سے وہ اللہ کا ولی نہیں بلکہ ملعون و مردود ہے (3) تیسری قسم کا جادو جنات کے ذریعہ زمین والوں کی روحوں سے امداد و اعانت طلب کرنے کا ہے معتزلہ اور فلاسفہ اس کے قائل نہیں ان روحوں سے بعض مخصوص الفاظ اور اعمال سے تعلق پیدا کرتے ہیں اسے سحر یا بالعزائم اور عمل تسخیر بھی کہتے ہیں (4) چوتھی قسم خیالات کا بدل دینا آنکھوں پر اندھیرا ڈال دینا اور شعبدہ بازی کرنا ہے جس سے حقیقت کے خلاف دکھائی دینے لگتا ہے تم نے دیکھا ہو گا کہ شعبدہ باز پہلے ایک کام شروع کرتا ہے جب لوگ دلچسپی کے ساتھ اس طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف متوجہ ہو کر ہمہ تن اس میں مصروف ہو جاتے ہیں وہ پھرتی سے ایک دوسرا کام کر ڈالتا ہے جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ہے اور اسے دیکھ کر وہ حیران رہ جاتے ہیں، بعض مفسرین کا قول ہے کہ فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم کا تھا اسی لئے قرآن میں ہے آیت (سحروا اعین الناس والسترھبوھم) الخ لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور ان کے دلوں میں ڈر بٹھا دیا اور جگہ ہے یخیل الیہ موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں وہ سب لکڑیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں حالانکہ درحقیقت ایسا نہ تھا واللہ اعلم (5) پانچویں قسم بعض چیزوں کی ترکیب دے کر کوئی عجیب کام اس سے لینا مثلاً گھوڑے کی شکل بنا دیا اس پر ایک سوار بنا کر بٹھا دیا اس کے ہاتھ میں ناقوس ہے جہاں ایک ساعت گزری اور اس ناقوس میں سے آواز نکلی حالانکہ کوئی اسے نہیں چھیڑتا، اسی طرح انسانی صورت اس کاریگری سے بنائی کہ گویا اصلی انسان ہنس رہا ہے یا رو رہا ہے، فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم میں سے تھا کہ وہ بنائے ہوئے سانپ وغیرہ زئبق کے باعث زندہ حرکت کرنے والے دکھائی دیتے تھے گھڑی اور گھنٹے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں جن سے بڑی بڑی وزنی چیزیں کھینچ آتی ہیں سب اسی قسم میں داخل ہیں حقیقت میں اسے جادو ہی نہ کہنا چاہئے کیونکہ یہ تو ایک ترکیب اور کاریگری ہے جس کے اسباب بالکل ظاہر ہیں جو انہیں جانتا ہو وہ ان اسباب و فنون سے یہ کام لے سکتا ہے اسی طرح کا وہ حیلہ بھی ہے کہ جو بیت المقدس کے نصرانی کرتے تھے کہ پر اسرار طریقہ سے گرجے کی قندیلیں جلا دیں اور اسے گرجے کی کرامت مشہور کر دی یا اور لوگوں کو اپنے دین کی طرف جھکا لیا بعض کرامیہ صوفیوں کا بھی خیال ہے کہ اگر ترغیب و ترہیب کی حدیثیں گھڑ لی جائیں اور لوگوں کو عبادت کی طرف مائل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن یہ بڑی غلطی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنی جگہ جہنم میں مقرر کر لے اور فرمایا میری حدیثیں بیان کرتے رہو لیکن مجھ پر جھوٹ نہ باندھو مجھ پر جھوٹ بولنے والا قطعاً جہنمی ہے ایک نصرانی پادری نے ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک پرند کا چھوٹا سا بچہ جسے اڑنے اور چلنے پھرنے کی طاقت نہیں ایک گھونسلے میں بیٹھا ہے جب وہ اپنی ضعیف اور پست آواز نکالتا ہے تو اور پرندے اسے سن کر رحم کھا کر زیتون کا پھل اس گھونسلے میں لا لا کر رکھ جاتے ہیں اس نے اسی صورت کا ایک پرندہ کسی چیز کا بنایا اور نیچے سے اسے کھوکھلا رکھا اور ایک سوراخ اس کی چونچ کی طرف رکھا جس سے ہوا اس کے اندر گھستی تھی پھر جب نکلتی تھی تو اسی طرح کی آواز اس سے پیدا ہوتی تھی اسے لا کر اپنے گرجے میں ہوا کے رخ رکھ دیا چھت میں ایک چھوٹا سوراخ کر دیا تاکہ ہوا اس سے جائے اب جب ہوا چلتی اور اس کی آواز نکلتی تو اس قسم کے پرندے جمع ہو جاتے اور زیتون کے پھل لا لا کر رکھ جاتے اس نے لوگوں میں شہرت دینی شروع کی کہ اس گرجے میں یہ کرامت ہے یہاں ایک بزرگ کا مزار ہے اور یہ کرامت انہی کی ہے لوگوں نے بھی جب اپنی آنکھوں یہ ان ہونی عجیب بات دیکھی تو معتقد ہو گئے اور اس قبر پر نذر نیاز چڑھانے لگے اب کرامت دور دور تک مشہور ہو گئی حالانکہ کہ کوئی کرامت نہ تھی نہ معجزہ تھا صرف ایک پوشیدہ فن تھا جسے اس ملعون شخص نے پیٹ بھرنے کے لئے پوشیدہ طور پر رکھا تھا اور ایک لعنتی فرقہ اس پر ریجھا ہوا تھا (6) چھٹی قسم جادو کی بعض دواؤں میں عجیب عجیب خاصیتیں ہیں مقناطیس ہی کو دیکھو کہ لوہا کس طرح اس کی طرف کھچ جاتا ہے اکثر صوفی اور فقیر اور درویش انہی حیلہ سازیوں کو کرامت کر کے لوگوں کو دکھاتے ہیں اور انہیں مرید بناتے پھرتے ہیں۔ (7) ساتویں قسم دل پر ایک خاص قسم کا اثر ڈال کر اس سے جو چاہنا منوا لینا ہے مثلاً اس سے کہدیا کہ مجھے اسم اعظم یاد ہے یا جنات میری قبضہ میں ہیں اب اگر سامنے والا کمزور دل کچے کانوں اور بودے عقیدے والا ہے تو وہ اسے سچ سمجھ لے گا اور اس کی طرف سے ایک قسم کا خوف ڈر ہیبت اور رعب اس کے دل پر بیٹھ جائے گا جو اس کو ضعیف بنا دے گا اب اس وقت جو چاہے کرے گا اور اس کا کمزور دل اسے عجیب عجیب باتیں دکھاتا بیٹھ جائے گا جو اس کو ضعیف بنا دے گا اب اس وقت جو چاہے کرے گا اور اس کا کمزور دل اسے عجیب عجیب باتیں دکھاتا جائے گا اسی کو تمبلہ (عام زبان میں اسے معمول) کہتے ہیں اور یہ اکثر کم عقل لوگوں پر ہو جایا کرتا ہے اور علم فراست سے کامل عقل والا اور کم عقل والا انسان معلوم ہو سکتا ہے اور اس حرکت کا کرنے والا اپنا یہ فعل اپنی قوت قیافہ کے ذریعہ سے کم عقل شخص کو پہچان کر کے ہی کرتا ہے (8) آٹھویں قسم چغلی کرنا جھوٹ سچ ملا کر کسی کے دل میں اپنا گھر کر لینا اور خفیہ چالوں سے اسے اپنا گرویدہ کر لینا یہ چغل خوری اگر لوگوں کو بھڑکانے بدکانے اور ان کے درمیان عداوت و دشمنی ڈالنے کے لئے ہو تو شرعاً حرام ہے جب اصلاح کے طور پر اور آپس میں ایک دوسرے مسلمان کو ملانے کے لئے کوئی ایسی بات ظاہر کہہ دی جائے جس سے ایک فریق دوسرے فریق سے خوش ہو جائے یا کوئی آنے والی مصیبت مسلمانوں پر سے ٹل جائے یا کفار کی قوت زائل ہو جائے ان میں بد دلی پھیل جائے اور مخالف و پھوٹ پڑے تو یہ جائز ہے جیسے حدیث میں ہے کہ وہ شخص جھوٹا نہیں جو بھلائی کے لئے ادھر کی ادھر لے جاتا ہے اور جیسے حدیث میں ہے کہ لڑائی مکر کا نام ہے اور جیسے حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنگ احزاب کے موقعہ پر کفار عرب اور کفار یہود کے درمیان کچھ ادھر ادھر کی اوپری باتیں کہہ کر جدائی ڈلوا دی تھی اور انہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی یہ کام بڑے عالی دماغ زیرک اور معاملہ فہم شخص کا ہے۔ یہ یاد رہے کہ امام رازی نے جادو کی جو یہ آٹھ قسمیں بیان کی ہیں یہ صرف با اعتبار لفظ کے ہیں کیونکہ عربی زبان میں سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بہت لطیف اور باریک ہو اور ظاہربین انسان کی نگاہوں سے اس کے اسباب پوشیدہ رہ جائیں اسی واسطے ایک حدیث میں ہے کہ بعض بیان بھی جادو ہوتا ہے اور اسی لئے صبح کے اول وقت کو سحور کہتے ہیں کہ و مخفی ہوتا ہے اور اس رگ کو بھی سحر کہتے ہیں جو غذا کی جگہ ہے۔ ابوجہل نے بدر والے دن یہی کہا تھا کہ اس کی سحر یعنی رگ طعام مارے خوف کے پھول گئی حضرت عائشہ فرماتی ہیں میرے سحر و نحر کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نحرے سے مراد سینہ اور سحر سے مراد رنگ غذا۔ قرآن میں بھی ہے آیت (سحروا اعین الناس) یعنی لوگوں کی نگاہوں سے اپنا جادو کے وقت جو چاہتا ہے کہ دیتا ہے کہ معتزلہ اور ابو اسحاق اسفراینی شافعی اس کے قائل نہیں اور جادو کبھی ہاتھ کی چالاکی سے بھی ہوتا ہے اور کبھی ڈوروں دھاگوں سے بھی کبھی اللہ کا نام پڑھ کر دم کرنے سے بھی اس میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔