أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ ۗ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿108﴾
‏ [جالندھری]‏ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو جس طرح کے سوال پہلے موسیٰ سے کئے گئے تھے؟ اور جس شخص نے ایمان (چھوڑ کر اس) کے بدلے کفر لیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا ‏
تفسیر
کثرت سوال حجت بازی کے مترادف ہے!
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی ایمان والوں کو روکتے ہوئے فرماتا ہے کہ کسی واقعہ کے ہونے سے پہلے میرے نبی سے فضول سوال نہ کیا کو۔ یہ کثرت سوال کی عادت بہت بری ہے جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت (یا ایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیاء) ایمان والو ان چیزوں کا سوال نہ کیا کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں برا لگے گا اور اگر تم قرآن کے نازل ہونے کے زمانہ میں ایسے سوالوں کا سلسلہ جاری رکھو گے تو یہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی۔ کسی بات کے واقع ہونے سے پہلے اس کی نسبت سوال کرنے میں خوف یہ ہے کہ کہیں اس سوال کی وجہ سے وہ حرام نہ ہو جائیں صحیح حدیث میں ہے کہ مسلمانوں میں سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال سے حرام ہو گئی ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا۔ کہ "ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے تو کیا کرے؟ اگر لوگوں کو خبر کرے تو یہ بھی بڑی بےشرمی کی بات ہے اور اگر چپ ہو جائے تو بڑی بےغیرتی کی بات ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال بہت برا معلوم ہوا آخر اسی شخص کو ایسا واقعہ پیش آیا اور لعان کا حکم نازل ہوا۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فضول بکواس، مال کو ضائع کرنے اور زیادہ پوچھ گچھ سے منع فرمایا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے میں جب تک کچھ نہ کہوں، تم بھی نہ پوچھو تم سے پہلے لوگوں کو اسی بدخصلت نے ہلاک کر دیا کہ وہ بکثرت سوال کرتے تھے اور اپنے نبیوں کے سامنے اختلاف کرتے تھے۔ جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ اور اگر منع کروں تو رک جایا کرو یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب لوگوں کو خبر دی کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے تم پر حج فرض کیا ہے تو کسی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اس نے پھر پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا اس نے تیسری دفعہ پھر یہی سوال کیا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں لیکن اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم کبھی بھی اس حکم کو بجا نہ لا سکتے پھر آپ نے مندرجہ بالا فرمان ارشاد فرمایا حضرت انس فرماتے ہیں جب ہمیں آپ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں ہیبت کھاتے تھے چاہتے تھے کہ کوئی بادیہ نشین ناواقف شخص آ جائے وہ پوچھے تو ہم بھی سن لیں۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں میں کوئی سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنا چاہتا تھا تو سال سال بھر گزر جاتا تھا کہ مارے ہیبت کے پوچھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ہم تو خواہش رکھتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر بیٹھے پھر ہم بھی سن لیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی جماعت نہیں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف بارہ ہی مسئلے پوچھے جو سب سوال مع جواب کے قرآن پاک میں مذکورہ ہیں جیسے شراب وغیرہ کا سوال حرمت والے مہینوں کی بابت کا سوال، یتیموں کی بابت کا سوال وغیرہ وغیرہ۔ یہاں پر "ام" یا"تو بل" کے معنی میں ہے یا اپنے اصلی معنی میں ہے یعنی سوال کے بارے میں جو یہاں پر انکاری ہے یہ حکم مومن کافر سب کو ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سب کی طرف تھی قرآن میں اور جگہ ہے آیت (یسأالک اھل الکتاب) اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر کوئی آسمانی کتاب اتارے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا کہ اللہ کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں جس ظلم کی وجہ سے انہیں ایک تند و تیز آواز سے ہلاک کر دیا گیا۔ رافع بن حرملہ اور وہب بن زید نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی آسمانی کتاب ہم پر نازل کیجئے جسے ہم پڑھیں اور ہمارے شہروں میں دریا جاری کر دیں تو ہم آپ کو مان لیں اس پر یہ آیت اتری۔ ابو العالیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی اسی طرح ہو جاتا جس طرح بنی اسرائیل کے گناہوں کا کفارہ تھا آپ نے یہ سنتے ہی تین دفعہ جناب باری تعالٰی میں عرض کی کہ "نہیں الہ نہیں" ہم یہ نہیں چاہتے پھر فرمایا سنو بنو اسرائیل میں سے جہاں کوئی گناہ کرتا اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا پایا جاتا اور ساتھ ہی اس کا کفارہ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا اب یا تو دنیا کی رسوائی کو منظور کر کے کفارہ ادا کر دے اور اپنے پوشیدہ گناہوں کو ظاہر کرے یا کفارہ نہ دے اور آخرت کی رسوائی منظور کرے لیکن تم سے اللہ تعالٰی نے فرما دیا آیت (ومن یعمل سوء او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما) یعنی جس سے کوئی برا کام ہو جائے یا وہ اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر استغفار کرے تو وہ اللہ کو بہت بڑا بخشش اور مہربانی کرنے والا پائے گا۔ اسی طرح ایک نماز دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے پھر جمعہ دوسرے جمعہ تک کفارہ ہو جاتا ہے سنو جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن برائی نہ کرے تو برائی لکھی نہیں جاتی اور اگر کر گزرے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور اگر بھلائی کا ارادہ کرے پھر گو نہ کرے لیکن بھلائی لکھ لی جاتی ہے اور اگر کر بھی لے تو دس بھلائیاں لکھی جاتی ہیں اب بتاؤ تم اچھے رہے یا بنی اسرائیل؟ تم بنی اسرائیل سے بہت ہی اچھے ہو ہاں باوجود اتنے کرم اور رحم کے پھر بھی کوئی ہلاک ہو تو سمجھو کہ یہ خود ہلاک ہونے والا ہی تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی قریشیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے تو ہم ایمان لاتے ہیں آپ نے فرمایا اچھا لیکن پھر مائدہ(آسمانی دستر خوان) مانگنے والوں کا جو انجام ہوا وہی تمہارا بھی ہو گا اس پر وہ انکاری ہو گئے اور اپنے سوال کو چھوڑ دیا مراد یہ ہے کہ تکبر عناد سرکشی کے ساتھ نبیوں سے سوال کرنا نہایت مذموم حرکت ہے جو کفر کو ایمان کے بدلے مول لے اور آسانی کو سختی سے بدلے وہ سیدھی راہ سے ہٹ کر جہالت و ضلالت میں گھر جاتا ہے اسی طرح غیر ضروری سوال کرنے والا بھی جیسے اور جگہ ہے آیت (الم تر الی الذین بدلوا) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جو اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلتے ہیں اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ بڑی بری قرار گاہ ہے۔