وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿145﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر تم ان اہل کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کر آؤ تو بھی یہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کریں اور تم بھی ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہو اور ان میں سے بھی بعض بعض کے قبلے کے پیرو نہیں اور اگر تم باوجود اسکے کہ تمہارے پاس دانش (یعنی وحی خدا) آ چکی ہے ان کی خواہشوں کے پیچھے چلو گے تو ظالموں میں داخل ہو جاؤ گے ‏
تفسیر
کفر و عناد زدہ یہودی
یہودیوں کے کفر و عناد اور مخالفت و سرکشی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجودیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا انہیں علم ہے لیکن پھر بھی یہ حالت ہے کہ ہر قسم کی دلیلیں پیش ہو چکنے کے بعد بھی حق کی پیروی نہیں کرتے جیسے اور جگہ ہے آیت (ان الذین حقت علیھم کلمتہ ربک لا یومنون ولو جاء تھم کل ایت حتی یروا العذاب الالیم) یعنی جن لوگوں پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے چاہے ان کے پاس یہ تمام آیتیں آ جائیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت بیان فرماتا ہے کہ جس طرح وہ ناحق پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تو وہ بھی سمجھ لیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ ان کی باتوں میں آ جائیں اور ان کی راہ چل پڑیں وہ ہمارے تابع فرمان ہیں اور ہماری مرضی کے عامل ہیں وہ ان کی باطل خواہش کی تابعداری ہرگز نہیں کریں گے نہ ان سے یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا حکم آ جانے کے بعد ان کے قبلہ کی طرف توجہ کریں پھر اپنے نبی کو خطاب کر کے در اصل علماء کو دھمکایا گیا کہ حق کے واضح ہو جانے کے بعد کسی کے پیچھے لگ جانا اور اپنی یا دوسروں کی خواہش پرستی کرنا یہ صریح ظلم ہے۔