وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿190﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ‏
تفسیر
حکم جہاد اور شرائط
حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورۃ برأت نازل ہوئی ، بلکہ عبدالرحمن بن زید بن سلام رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو، لیکن اس بارہ میں اختلاف ہے اس لئے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں ، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو جیسے اور جگہ فرمایا آیت (وقاتلو ا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ) یعنی مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہئے ۔ پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالٰی پسند نہیں کرتا، یعنی اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو، خیانت اور چوری نہ کرو ، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگی نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو، بدعہدی سے بچو، ناک کان وگیرہ اعضاء نہ کاٹو، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم وزیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو، بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ، تین ، پانچ، سات ، نو، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کر دی باقی چھوڑ دیں فرمایا کہ کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالٰی نے ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالٰی نے ان ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالٰی ان پر قیامت تک کے لئے ناراض ہو گیا۔ یہ حدیث اسناداً صحیح ہے، مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آگئی تو انہوں نے ظلم وزیادتی شروع کر دی فرمان باری تعالٰی کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہو گیا ، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم وزیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے ، چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل وخون ہوتا ہے اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل وخون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر وشرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے، ابو مالک فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں۔ پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کرو جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ شہر حرمت والا ہے آسمان وزمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لئے اللہ تعالٰی نے میرے لئے اسے حلال کر دیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالٰی نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں۔ آپ کے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے ۔ گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے۔ پھر فرمایا کہ ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کر دیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی یہیں ان سے لڑو تاکہ یہ ظلم دفع ہو سکے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درخت تلے اپنے اصحاب سے بیعت لی۔ پھر اللہ تعالٰی نے اس لڑائی کو دفع کر دیا چنانچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے کہ وہ آیت (الذی کف ایدیہم عنکم) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کر دیں اور اس سے باز آجائیں اور اسلام قبول کر لیں تو اللہ تعالٰی ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالٰی ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تا کہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالٰی کا دین غالب اور بلند ہو جائے اور تمام دین پر ظاہر ہو جائے، جیسے بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت وغیرت قومی سے لڑتا ہے، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالٰی کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو، بخاری ومسلم کی ایک اور حدیث میں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں ان کی جان ومال کا تحفظ میرے ذمہ ہوگا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آجائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہوگا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے یہی معنی ہیں ۔ حضرت مجاہد کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے، یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ وجدال ہو، یہاں لفظ عدوان جو کہ زیاتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لئے ہے حقیقتا وہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا آیت (فمن اعتدی علیکم فاعتدو علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) یعنی تم پر جو زیادتی کرے تم بھی اس پر اس جیسی زیادتی کر لو اور جگہ ہے آیت (جزاء سیئۃ سیئۃ بمثلہا) یعنی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جگہ فرمان ہے آیت (فان عاقبتم فعاقبو بمثل ماعوقبتم بہ) یعنی اگر تم سزا اور عذاب کرو تو اسی مثل سزا کرو جو تم کئے گئے ہو، پاس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا "بدلے" کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا وعذاب نہیں، حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گھیر کر کہا کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو اللہ تعالٰی نے مسلمان بھائی کا خون حرام کر دیا ہے، انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے آپ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالٰی کا پسندیدہ دین غالب آگیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ سے مخفی نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے سنو! اسلام کی بنائیں پانچ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا، اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم آپ نے نہیں سنا کہ ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے ، اور جگہ ارشاد ہے ان سے لڑو تاوقتیکہ فتنہ مٹ جائے آپ نے فرمایا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس کی تعمیل کر لی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آ پڑتا تھا یا تو قتل کر دیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بہ کثرت ہو گئے اور فتنہ برباد ہو گیا اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالٰی نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور علی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔