الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴿194﴾
‏ [جالندھری]‏ ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں، پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے ‏
تفسیر
بیعت رضوان
ذوالقعدہ سن ٦ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرے کے لئے صحابہ کرام سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ لڑائی موقوف کر دیتے ، حدیبیہ کے میدان میں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو مشرکین نے قتل کر دیا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چودہ سو صحابہ سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور صلح کی طرف مائل ہو گئے ۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہو گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کر لیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن ٨ ہجری کا واقعہ ہے، اللہ تعالٰی آپ پر درود وسلام بھیجے۔ پھر فرماتا ہے جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر لو، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو، یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شوکت وشان نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہو گئی، لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضا کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت مجاہد کا قول بھی یہی ہے۔ ارشاد ہے اللہ تعالٰی کی اطاعت اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین ودنیا میں اللہ تعالٰی کی تائید ونصرت رہتی ہے۔