نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿223﴾
‏ [جالندھری]‏ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ اور اپنے لیے (نیک عمل) آگے بھیجو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے رو برو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) ایمان والوں کو بشارت سنادو ‏
تفسیر
پھر فرمایا کہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی اولاد ہونے کی جگہ تم اپنی کھیتی میں جیسے بھی چاہو آؤ یعنی جگہ تو وہی ایک ہو، طریقہ خواہ کوئی بھی ہو، سامنے کر کے یا اس کے خلاف۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہود کہتے تھے کہ جب عورت سے مجامعت سامنے رخ کر کے نہ کی جائے اور حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ ان کی تردید میں یہ جملہ نازل ہوا کہ مرد کو اختیار ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہودیوں نے یہی بات مسلمانوں سے بھی کہی تھی، ابن جریح فرماتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا کہ خواہ سامنے سے آئے خواہ پیچھے سے لیکن ایک ہی رہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس کیسے آئیں اور کیا چھوڑیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تیری کھیتی ہے جس طرح چاہو آؤ، ہاں اس کے منہ پر نہ مار، زیادہ برا نہ کہہ، اس سے روٹھ کر الگ نہ ہو جا، ایک ہی گھر میں رہ(احمد و سنن) ابن ابی حاکم میں ہے کہ حمیر کے قبیلہ کے ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ مجھے اپنی بیویوں سے زیادہ محبت ہے تو اس کے بارے میں احکام مجھے بتائے، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔ مسند احمد میں ہے کہ چند انصاریوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا، طحاوی کی کتاب مشکل الحدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی سے الٹا کر کے مباشرت کی تھی، لوگوں نے اسے برا بھلا کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سابط حضرت حفصہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر کے پاس آئے اور کہا میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن شرم آتی ہے، فرمایا بھتیجے تم نہ شرماؤ اور جو پوچھنا ہو پوچھ لو، کہا فرمائیے عورتوں کے پیچھے کی طرف سے جماع کرنا جائز ہے؟ فرمایا سنو مجھ سے حضرت ام سلمہ نے فرمایا ہے کہ انصار عورتوں کو الٹا لٹایا کرتے تھے اور یہود کہتے تھے کہ اس طرح سے بچہ بھینگا ہوتا ہے، جب مہاجر مدینہ شریف آئے اور یہاں کی عورتوں سے ان کا نکاح ہوا اور انہوں نے بھی یہی کرنا چاہا تو ایک عورت نے اپنے خاوند کی بات نہ مانی اور کہا جب تک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان نہ کر لوں تیری بات نہ مانوں گی چنانچہ وہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئی، ام سلمہ نے بٹھایا اور کہا ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آجائیں گے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انصاریہ عورت شرمندگی کی وجہ سے نہ پوچھ سکی اور واپس چلی گئی لیکن ام المومنین نے آپ سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصاریہ عورت کو بلا لو، پھر یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا جگہ ایک ہی ہو، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ہلاک ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا، میں نے رات کو اپنی سواری الٹی کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامنے سے آ، پیچھے سے آ، اختیار ہے لیکن حیض کی حالت میں نہ آ اور پاخانہ کی جگہ نہ آ۔ انصار والا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کو اللہ بخشے، انہیں کچھ وہم سا ہو گیا۔ بات یہ ہے کہ انصاریوں کی جماعت پہلے بت پرست تھی اور یہودی اہل کتاب تھے۔ بت پرست لوگ ان کی فضیلت اور علمیت کے قائل تھے اور اکثر افعال میں ان کی بات مانا کرتے تھے۔ یہودی ایک ہی طرح پر اپنی بیویوں سے ملتے تھے۔ یہی عادت ان انصار کی بھی تھی۔ ان کے برخلاف مکہ والے کسی خاص طریقے کے پابند نہ تھے، وہ جس طرح جی چاہتا ملتے۔ اسلام کے بعد مکہ والے مہاجر بن کر مدینہ میں انصار کے ہاں جب اترے تو ایک مکی مجاہد مرد نے ایک مدنی انصاریہ عورت سے نکاح کیا اور اپنے من بھاتے طریقے برتنے چاہے، عورت نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ اسی ایک مقررہ طریقہ کے علاوہ اجازت نہیں دیتی۔ بات بڑھتے بڑھتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور یہ فرمان نازل ہوا۔ پس سامنے سے پیچھے کی طرف سے اور جس طرح چاہے اختیار ہے ہاں جگہ ایک ہی ہو۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے قرآن شریف سیکھا اول سے آخر تک انہیں سنایا، ایک آیت کی تفسیر اور مطلب پوچھا۔ اس آیت پر پہنچ کر جب میں نے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے یہی بیان کیا (جو اوپر گزرا) ابن عمر کا وہم یہ تھا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ قرآن پڑھتے ہوئے کسی سے بولتے چالتے نہ تھے لیکن ایک دن تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچے تو اپنے شاگرد حضرت نافع سے فرمایا جانتے ہو یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا نہیں، فرمایا یہ عورتوں کی دوسری جگہ کی وطی کے بارے میں اتری ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ایک شخص نے اپنی بیوی سے پیچھے سے کیا تھا جس پر اس آیت میں رخصت نازل ہوئی لیکن ایک تو اس میں محدثین نے کچھ علت بھی بیان کی ہے، دوسرے اس کے معنی بھی یہی ہو سکتے ہیں کہ پیچھے کی طرف سے آگے کی جگہ میں کیا اور اوپر کی جو روایتیں ہیں وہ بھی سنداً صحیح نہیں بلکہ انہیں حضرت نافع سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے وطی دبر کو جائز کیا ہے؟ تو فرمایا لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ پھر وہی انصاریہ عورت اور مہاجر والا واقعہ بیان کیا اور فرمایا حضرت عبداللہ تو اس آیت کا یہ مطلب ارشاد فرماتے تھے، اس روایت کی اسناد بھی بالکل صحیح ہے اور اس کے خلاف سند صحیح نہیں، معنی مطلب بھی اور ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابن عمر سے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔ وہ روایتیں عنقریب بیان ہوں گی انشاء اللہ جن میں ہے کہ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نہ یہ مباح ہے نہ حلال بلکہ حرام ہے، تو یہ قول یعنی جواز کا بعض کا بعض فقہاء مدینہ وغیرہ کی طرف بھی منسوب ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے امام کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قول ہرگز یہ نہیں، صحیح حدیثیں بکثرت اس فعل کی حرمت پر وارد ہیں۔ ایک روایت میں ہے لوگو! شرم و حیا کرو اللہ تعالٰی حق بات فرمانے سے شرم نہیں کرتا۔ عورت کے پاخانہ کی جگہ وطی نہ کرو۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس حرکت سے لوگوں کو منع فرمایا (مسند احمد) اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عورت یا مرد کے ساتھ یہ کام کرے اس کی طرف اللہ تعالٰی کی رحمت سے نہیں دیکھے گا (ترمذی) حضرت ابن عباس سے ایک شخص یہ مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ کیا تو کفر کرنے کی بابت سوال کرتا ہے؟ ایک شخص نے آپ سے آکر کہا کہ میں نے آیت (انی شئتم) کا یہ مطلب سمجھا اور میں نے اس پر عمل کیا تو آپ ناراض ہوئے اور اسے برا بھلا کہا اور فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ خواہ کھڑے ہو کر، خواہ بیٹھ کر چت خواہ پٹ لیکن جگہ وہی ایک ہو، ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے پاخانہ کی جگہ وطی کے وہ چھوٹا لوطی ہے (مسند احمد) ابودردار فرماتے ہیں کہ یہ کفار کا کام ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا یہ فرمان بھی منقول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے واللہ اعلم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالٰی قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ۔ ایک تو اغلام بازی کرنے والا خواہ وہ اوپر والا ہو خواہ نیچے والا ہو، اور اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنے والا، اور چوپائے جانور سے یہ کام کرنے والا اور عورت کی دبر میں وطی کرنے والا اور عورت اور اس کی بیٹی دونوں سے نکاح کرنے والا اور اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا اور ہمسایہ کو ستانے والا، یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کرے، لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے دوسرے راستے وطی کرے اسے کو اللہ تعالٰی نظرِ رحمت سے نہیں دیکھے گا (مسند) مسند احمد اور سنن میں مروی ہے کہ جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا غیر جگہ کرے یا کاہن کے پاس جائے اور اسے سچا سمجھے، اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اتری ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام بخاری اس حدیث کو ضعیف بتاتے ہیں، ترمذی میں روایت ہے کہ ابوسلمہ بھی دبر کی وطی کو حرام بتاتے تھے، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں لوگوں کا اپنی بیوی سے یہ کام کرنا کفر ہے (نسائی) ایک مرفوع حدیث میں اس معنی کی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے، اور روایت میں ہے کہ یہ جگہ حرام ہے۔ حضرت ابن مسعود بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی سے جب یہ بات پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا بڑا کمینہ وہ شخص ہے، دیکھو قرآن میں ہے کہ لوطیوں سے کہا گیا تم وہ بدکاری کرتے ہو جس کی طرف کسی نے تم سے پہلے توجہ نہیں کی، پس صحیح احادیث اور صحابہ کرام سے بہت سی روایتوں اور سندوں سے اس فعل کی حرمت مروی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر بھی اسے حرام کہتے ہیں۔ چنانچہ دارمی میں ہے کہ آپ سے ایک مرتبہ یہ سال ہوا تو آپ نے فرمایا کیا مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے؟ اس کی اسناد صحیح ہے اور حکم بھی حرمت کا صاف ہے، پس غیر صحیح اور مختلف معنی والی روایتوں میں پڑ کر اتنے جلیل القدر صحابی کی طرف ایک ایسا گندا مسئلہ منسوب کرنا ٹھیک نہیں۔ گو کہ روایتیں اس قسم کی بھی ملتی ہیں، امام مالک سو ان کی طرف بھی اس مسئلہ کی نسبت صحیح نہیں بلکہ معمر بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ امام صاحب اسے حرام جانتے تھے، اسرائیل بن روح نے آپ سے ایک مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم بےسمجھ ہو، بوائی کھیت میں ہی ہوتی ہے، خبردار شرم گاہ کے سوا اور جگہ سے بچو۔ سائل نے کہا حضرت لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اس فعل کو جائز کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا جھوٹے ہیں مجھ پر تہمت باندھتے ہیں۔ امام مالک سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد اور ان کے تمام شاگردوں اور ساتھی، سعید بن مسیب، ابوسلمہ، عکرمہ، عطاء، سعید بن جبیر، عروہ بن زبیر، مجاہد، حسن وغیرہ سلف صالحین سب کے سب اسے حرام کہتے ہیں اور اس بارے میں سخت تشدد کرتے ہیں بلکہ بعض تو اسے کفر کہتے ہیں، جمہور علماء کرام کا بھی اس کی حرمت پر اجماع ہے، گو بعض لوگوں نے فقہاء مدینہ بلکہ امام مالک سے بھی اس کی حلت نقل کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ عبدالرحمن بن قاسم کا قول ہے کہ کسی دیندار شخص کو میں نے تو اس کی حرمت میں شک کرنے والا نہیں پایا، پھر آیت (نساء کم حرث لکم) پڑھ کر فرمایا خود یہ لفظ حرث ہی اس کی حرمت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ دوسری جگہ کھیتی کی جگہ نہیں، کھیتی میں جانے کے طریقہ کا اختیار ہے نہ کہ جگہ بدلنے کا۔ گو امام مالک سے اس کے مباح ہونے کی روایتیں بھی منقول ہیں لیکن ان کی اسنادوں میں سخت ضعف ہے۔ واللہ اعلم۔ ٹھیک اس طرح امام شافعی سے بھی ایک روایت لوگوں نے گھڑ لی ہے حالانکہ انہوں نے اپنی چھ کتابوں میں کھلے لفظوں اسے حرام لکھا ہے۔ پھر اللہ فرماتا ہے اپنے لئے کچھ آگے بھی بھیجو یعنی ممنوعات سے بچو نیکیاں کرو تاکہ ثواب آگے جائے، اللہ سے ڈرو اس سے ملنا ہے وہ حساب کتاب لے گا، ایماندر ہر حال میں خوشیاں منائیں، ابن عباس فرماتے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب جماع کا ارادہ کرے۔ یہ دعا ( بسم اللہ اللھم جنبنا الیشیطان و جنب الشیطان مارزقنا) پڑھے یعنی اے اللہ تو ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان سے بچا لے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اس جماع سے نطفہ قرار پکڑ گیا تو اس بچے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔