وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿228﴾
‏ [جالندھری]‏ اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے رہیں اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کو جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں اور عورتوں کو حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر البتہ مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے ‏
تفسیر
طلاق کے مسائل:
ان عورتوں کو جو خاوندوں سے مل چکی ہوں اور بالغہ ہوں، حکم ہو رہا ہے کہ طلاق کے بعد تین حیض تک رُکی رہیں پھر اگر چاہیں تو اپنا نکاح دوسرا کر سکتی ہیں، ہاں چاروں اماموں نے اس میں لونڈی کو مخصوص کر دیا ہے وہ دو حیض عدت گزارے کیونکہ لونڈی ان معاملات میں آزاد عورت سے آدھے پر ہے لیکن حیض کی مدت کا ادھورا ٹھیک نہیں بیٹھتا، اس لئے وہ دو حیض گزارے۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ لونڈی کی طلاقیں بھی دو ہیں اور اس کی عدت بھی دو حیض ہیں۔ (ابن جریر) لیکن اس کے راوی حضرت مظاہر ضعیف ہیں، یہ حدیث ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ بھی ہے۔ امام حافظ دارقطنی فرماتے ہیں گو اس کی نسبت بھی امام دارقطنی یہی فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ کا اپنا قول ہی ہے۔ اسی طرح خود خلیفۃ المسلمین حضرت فاروق اعظم سے مروی ہے، بلکہ صحابہ میں اس مسئلہ میں اختلاف ہی نہ تھا، ہاں بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ عدت کے بارے میں آزاد اور لونڈی برابر ہے، کیونکہ آیت اپنی عمومیت کے لحاظ سے دونوں کو شامل ہے اور اس لئے بھی کہ یہ فطری امر ہے لونڈی اور آزاد عورت اس میں یکساں ہیں۔ محمد بن سیرین اور بعض اہل ظاہر کا یہی قول ہے لیکن یہ ضعیف ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب سند والی روایت میں ہے کہ حضرت اسماء بن یزید بن سکن انصاریہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اس سے پہلے طلاق کی عدت نہ تھی۔ سب سے پہلے عدت کا حکم ان ہی کی طلاق کے بعد نازل ہوا۔ قروء کے معنی میں سلف خلف کا برابر اختلاف رہا ہے۔ ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد طہر یعنی پاکی ہے۔ حضرت عائشہ کا یہی فرمان ہے چنانچہ انہوں نے اپنی بھتیجی حضرت عبدالرحمن کی بیٹی حفصہ کو جبکہ وہ تین طہر گزار چکیں اور تیسرا حیض شروع ہوا تو حکم دیا کہ وہ مکان بدل لیں۔ حضرت عروہ نے جب یہ روایت بیان کی تو حضرت عمرہ نے جو صدیقہ کی دوسری بھتیجی ہیں، اس واقعہ کی تصدیق کی اور فرمایا کہ لوگوں نے حضرت صدیقہ پر اعتراض بھی کیا تو آپ نے فرمایا اقراء سے مراد طہر ہیں (موطا مالک) بلکہ موطا میں ابوبکر بن عبدالرحمن کا تو یہ قول بھی مروی ہے کہ میں نے سمجھدار علماء فقہاء کو قروء کی تفسیر طہر سے ہی کرتے سنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر بھی یہی فرماتے ہیں کہ جب تیسرا حیض شروع ہوا تو یہ اپنے خاوند سے بری ہو گی اور خاوند اس سے الگ ہوا (موطا) امام مالک فرماتے ہیں ہمارے نزدیک بھی مستحق امر یہی ہے۔ ابن عباس، زید بن ثابت، سالم، قاسم، عروہ، سلیمان بن یسار، ابوبکر بن عبدالرحمن، ابان بن عثمان، عطاء، قتادہ، زہری اور باقی ساتوں فقہاء کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک ، امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے۔ داؤد اور ابوثور بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی مروی ہے اس کی دلیل ان بزرگوں نے قرآن کی اس آیت سے بھی نکالی ہے کہ آیت ( فطلقوھن لعدتھن) یعنی انہیں عدت میں یعنی طہر میں پاکیزگی کی حالت میں طلاق دو، چونکہ جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے وہ بھی گنتی میں آتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ آیت مندرجہ بالا میں بھی قروء سے مراد حیض کے سوا کی یعنی پاکی حالت ہے، اسی لئے یہ حضرات فرماتے ہیں کہ جہاں تیسرا حیض شروع ہو اور عورت نے اپنے خاوند کی عدت سے باہر ہو گئی اور اس کی کم سے کم مدت جس میں اگر عورت کہے کہ اسے تیسرا حیض شروع ہو گیا ہے تو اسے سچا سمجھا جائے۔ بتیس دن اور دو لحظہ ہیں، عرب شاعروں کے شعر میں بھی یہ لفظ طہر کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین حیض ہیں، اور جب تک تیسرے حیض سے پاک نہ ہو لے تب تک وہ عدت ہی میں ہے۔ بعض نے غسل کر لینے تک کہا ہے اور اس کی کم سے کم مدت تینتیس دن اور ایک لحظہ ہے اس کی دلیل میں ایک تو حضرت عمر فاروق کا یہ فیصلہ ہے کہ ان کے پاس ایک مطلقہ عورت آئی اور کہا کہ میرے خاوند نے مجھے ایک یا دو طلاقیں دی تھیں پھر وہ میرے پاس اس وقت آیا جبکہ اپنے کپڑے اتار کر دروازہ بند کئے ہوئے تھی (یعنی تیسرے حیض سے نہانے کی تیاری میں تھی تو فرمائے کیا حکم ہے یعنی رجوع ہو جائے گا یا نہیں؟ ) آپ نے فرمایا میرا خیال تو یہی ہے رجوع ہو گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کی تائید کی۔ حضرت صدیق اکبر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابودرداء، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے۔ سعید بن مسیب، علقمہ، اسود، ابراہیم، مجاہد، عطاء، طاؤس، سعید بن جبیر، عکرمہ، محمد بن سیرین، حسن، قتاوہ، شعبی، ربیع، مقاتل بن حیات، سدی، مکحول، ضحاک، عطاء خراسانی بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام احمد سے بھی زیادہ صحیح روایت میں یہی مروی ہے آپ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابہ کرام سے یہی مروی ہے۔ ثوری، اوزاعی، ابن ابی لیلی، ابن شیرمہ، حسن بن صالح، ابوعبید اور اسحق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بن ابی جیش سے فرمایا تھا نماز کو اقراء کے دِنوں میں چھوڑ دو۔ پس معلوم ہوا کہ قروء سے مراد حیض ہے لیکن اس حدیث کا ایک راوی منذر مجہول ہے جو مشہور نہیں۔ ہاں ابن حبان اسے ثقہ بتاتے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں لغتاً قرء کہتے ہیں ہر اس چیز کے آنے اور جانے کے وقت کو جس کے آنے جانے کا وقت مقرر ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کے دونوں معنی ہیں حیض کے بھی اور طہر کے بھی او بعض اصولی حضرات کا یہی مسلک ہے واللہ اعلم۔ اصمعی بھی فرماتے ہیں کہ قرء کہتے ہیں وقت کو ابو عمر بن علاء کہتے ہیں عرب میں حیض کو اور طہر کو دونوں کو قرء کہتے ہیں۔ ابوعمر بن عبدالبر کا قول ہے کہ زبان عرب کے ماہر اور فقہاء کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ طہر اور حیض دونوں کے معنی قرء کے ہیں البتہ اس آیت کے معنی مقرر کرنے میں ایک جماعت اس طرف گئی اور دوسری اس طرف۔ (مترجم کی تحقیق میں بھی قرء سے مراد یہاں حیض لینا ہی بہتر ہے) پھر فرمایا ان کے رحم میں جو ہوا اس کا چھپانا حلال نہیں حمل ہو تو اور حیض آئے تو۔ پھر فرمایا اگر انہیں اللہ اور قیامت پر ایمان ہو، اس میں دھمکایا جا رہا ہے کہ حق کیخلاف نہ کہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خبر میں ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ اس پر کوئی بیرونی شہادت قائم نہیں کی جا سکتی اس لئے انہیں خبردار کر دیا گیا کہ عدت سے جلد نکل جانے کیلئے (حیض نہ آیا ہو) اور کہہ نہ دیں کہ انہیں حیض آ گیا یا عدت کو بڑھانے کیلئے (حیض) آیا مگر اسے چھپا نہ لیں اسی طرح حمل کی بھی خبر کر دیں۔ پھر فرمایا کہ عدت کے اندر اس شوہر کو جس نے طلاق دی ہے لوٹا لینے کا پورا حق حاصل ہے جبکہ طلاق رجعی ہو یعنی ایک طلاق کے بعد اور دو طلاقوں کے بعد، باقی رہی طلاق بائن یعنی تین طلاقیں جب ہو جائیں تو یاد رہے کہ جب یہ آیت اتری ہے تب تک طلاق بائن ہی نہیں بلکہ اس وقت تک جب چاہے طلاق ہو جائے سب رجعی تھیں طلاق بائن تو پھر اسلام کے احکام میں آئی کہ تین اگر ہو جائیں تو اب رجعت کا حق نہیں رہے گا۔ جب یہ بات خیال میں رہے گی تو علماء اصول کے اس قاعدے کا ضعف بھی معلوم ہو جائے گا کہ ضمیر لوٹانے سے پہلے کے عام لفظ کی خصوصیت ہوتی ہے یا نہیں اس لئے کہ اس آیت کے وقت دوسری شکل تھی ہی نہیں، طلاق کی ایک ہی صورت تھی واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ جیسے ان عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی ان عورتوں کے مردوں پر بھی حقوق ہیں۔ ہر ایک کو دوسرے کا پاس و لحاظ عمدگی سے رکھنا چاہئے، صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو تم نے اللہ کی امانت کہہ کر انہیں لیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے، عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے فرش پر کسی ایسے کو نہ آنے دیں جس سے تم ناراض ہو اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن مار ایسی نہ ہو کہ ظاہر ہو، ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں اپنی بساط کے مطابق کھلاؤ پلاؤ پہناؤ اوڑاؤ، ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہماری عورتوں کے ہم پر کیا حق ہیں، آپ نے فرمایا جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو اسے گالیاں نہ دو، اس سے روٹھ کر اور کہیں نہ بھیج دو، ہاں گھر میں رکھو، اسی آیت کو پڑھ کر حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کیلئے بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کیلئے اپنا بناؤ سنگار کرتی ہے۔ پھر فرمایا کہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، جسمانی حیثیت سے بھی اخلاقی حیثیت سے بھی، مرتبہ کی حیثیت سے بھی حکمرانی کی حیثیت سے بھی، خرچ اخراجات کی حیثیت سے بھی دیکھ بھال اور نگرانی کی حیثیت سے بھی ، غرض دنیوی اور اخروی فضیلت کے ہر اعتبار سے، جیسے اور جگہ ہے آیت (الرجال قوامون علی النساء) الخ، یعنی مرد عورتوں کے سردار ہیں اللہ تعالٰی نے ایک کو ایک پر فضیلت دے رکھی ہے اور اس لئے بھی کہ یہ مال خرچ کرتے ہیں۔ پھر فرمایا اللہ تعالٰی اپنے نافرمانوں سے بدلہ لینے پر غالب ہے اور اپنے احکام میں حکمت والا۔