لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿236﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگ دسست اپنی حیثیت کے مطابق، نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے ‏
تفسیر
حق مہر کب اور کتنا:
عقد نکاح کے بعد دخول سے بھی طلاق کا دینا مباح ہو رہا ہے۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مراد "مس" سے نکاح ہے دخول سے پہلے طلاق دے دینا بلکہ مہر کا بھی ابھی تقرر نہیں ہوا اور طلاق دے دینا بھی جائز ہے، گو اس میں عورت کے بیحد دِل شکنی ہے، اسی لئے حکم ہے کہ اپنے مقدور بھر اس صورت میں مرد کو عورت کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دے دے۔ تشریح فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے، ابن سیرین فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے، حضرت حسن بن علی نے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہ فرماتی تھیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اس کے خاندان کے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے، حضرت امام شافعی کا فرمان ہے کہ کسی چیز پر خاوند کو مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ کم سے کم جس چیز کو متعہ یعنی فائدہ اور اسباب کہا جا سکتا ہے وہ کافی ہوگا۔ میرے نزدیک اتنا کپڑا متعہ ہے جتنے میں نماز پڑھ لینی جائز ہو جائے، گو پہلا قول حضرت الامام کا یہ تھا کہ مجھے اس کا کوئی صحیح اندازہ معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تیس درہم ہونے چاہئیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے، اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ اسباب دینا چاہئے یا صرف اسی صورت کو جس سے میل ملاپ نہ ہوا ہو، بعض تو سب کیلئے کہتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ آیت (وللمطلقت متاع بالمعروف) الخ، پس اس آیت کے عموم سے سب کیلئے وہ ثابت کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے آیت (فتعالین امتعکن) الخ، یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے کہو کہ اگر تمہاری چاہت دنیا کی زندگی اور اسی کی زینت کی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ اسباب بھی دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ چھوڑ دوں، پس یہ تمام ازواج مطہرات وہ تھیں جن کا مہر بھی مقرر تھا اور جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی آ چکی تھیں، سعید بن جبیر، ابوالعالیہ، حسن بصری کا قول یہی ہے۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض تو کہتے ہیں کہ ان کا نیا اور صحیح قول یہی ہے واللہ اعلم۔ بعض کہتے ہیں اسباب کا دینا اس طلاق والی کو ضروری ہے جس سے خلوت نہ ہوئی ہو گو مہر مقرر ہو چکا ہو کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت (یا ایھا الذین امنو اذا انکحتکم المومنات ثم طلقتمو ھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن و سرحوھن سراحا جمیلا) یعنی اے ایمان والو تم جب ایمان والی عورت سے نکاح کر لو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہاری طرف سے کوئی عدت نہیں جو عدت وہ گزاریں تم انہیں کچھ مال اسباب دے دو اور حسن کردار سے چھوڑ دو، سعید بن مسیب کا قول ہے کہ سورۃ احزاب کی یہ آیت سورۃ بقرہ کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے۔ حضرت سہل بن سعد اور ابواسید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیہ بنت شرجبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف اسی صورت میں بطور فائدہ کے اسباب و متاع کا دینا ضروری ہے جبکہ عورت کی وداع نہ ہوئی ہو اور مہر بھی مقرر نہ ہوا ہو اور اگر دخول ہو گیا ہو تو مہر مثل یعنی خاندان کے دستور کے مطابق دینا پڑے گا اگر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر مقرر ہو چکا ہو اور رخصت سے پہلے طلاق دے دے تو آدھا مہر دینا پڑے گا اور اگر رخصتی بھی ہو چکی ہے تو پورا مہر دینا پڑے گا اور یہی متعہ کا عوض ہوگا۔ ہاں اس مصیبت زدہ عورت کیلئے متعہ ہے جس سے نہ ملاپ ہوا نہ مہر مقرر ہوا اور طلاق مل گئی۔ حضرت ابن عمر اور مجاہد کا یہی قول ہے، گو بعض علماء اسی کو مستحب بتلاتے ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے ان کے سوا جو مہر مقرر کئے ہوئے نہ ہوں اور نہ خاوند بیوی کا میل ہوا ہو، یہی مطلب سورۃ احزاب کی اس آیت تخیر کا ہے جو اس سے پہلے اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے اور اسی لئے یہاں اس خاص صورت کیلئے فرمایا گیا ہے کہ امیر اپنی وسعت کے مطابق دیں اور غریب اپنی طاقت کے مطابق۔ حضرت شعبی سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا؟ تو آپ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دے دے، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کر لیتے۔