وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿240﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں ہاں اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور خدا زبردست حکمت والا ہے ‏
تفسیر
بیوگان کے قیام کا مسئلہ:
اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس سے پہلے کی آیت اس سے پہلے کی آیت یعنی چار مہینے دس رات کی عدت والی آیت کی منسوخ ہو چکی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن زبیر نے حضرت عثمان سے کہا کہ جب یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے تو پھر آپ اسے قرآن کریم میں کیوں لکھوا رہے ہیں، آپ نے فرمایا بھتیجے جس طرح اگلے قرآن میں یہ موجود ہے یہاں بھی موجود ہی رہے گی، ہم کوئی تغیر و تبدیل نہیں کر سکتے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں پہلے تو یہی حکم تھا کہ سال بھر تک نان نفقہ اس بیوہ عورت کو میت کے مال سے دیا جائے اور اسی کے مکان میں یہ رہے، پھر آیت میراث نے اسے منسوخ کر دیا اور خاوند کو اولاد ہونے کی صورت میں مال متروکہ کا آٹھواں حصہ اور اولاد نہ ہونے کے وقت چوتھائی مال ورثہ کا مقرر کیا گیا اور عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوئی۔ اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے، سعید بن مسیب کہتے ہیں سورۃ احزاب کی آیت (یاایھا الذین امنو اذانکحتم المومنات) الخ، نے اسے منسوخ کر دیا، حضرت مجاہد فرماتے ہیں سات مہینے بیس دن جو اصلی عدت چار مہینے دس دن کے سوا کے ہیں اس آیت میں اس مدت کا حکم ہو رہا ہے، عدت تو واجب ہے لیکن یہ زیادتی کی مدت کا عورت کو اختیار ہے خواہ وہیں بیٹھ کر یہ زمانہ گزار دے خواہ نہ گزارے اور چلی جائے، میراث کی آیت نے رہنے سہنے کے مکان کو بھی منسوخ کر دیا، وہ جہاں چاہ عدت گزارے مکان کا خرچ خاوند کے ذمہ ہیں، پس ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت نے سال بھر تک کی عدت کو واجب ہی نہیں کیا پھر منسوخ ہونے کے کیا معنی؟ یہ تو صرف خاوند کی وصیت ہے اور اسے بھی عورت پورا کرنا چاہے تو کرے ورنہ اس پر جبر نہیں، وصیتہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں وصیت کرتا ہے جیسے آیت (یوصیکم اللہ فی اولادکم) الخ، اس کا نصب فلتو صوالھن کو محذوف مان کر ہے۔ وصیتہ کی قرأت یہی ہے یعنی آیت (کتب علیکم وصیتہ) پس اگر عورتیں سال بھر تک اپنے فوت شدہ خاوندوں کے مکانوں میں رہیں تو انہیں نہ نکالا جائے اور اگر وہ عدت گزار کر جانا چاہیں تو ان پر کوئی جبر نہیں، امام ابن تیمیہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور بھی بہت سے لوگ اسی کو اختیار کرتے ہیں اور باقی کی جماعت اسے منسوخ بتاتی ہے، پس اگر ان کا ارادہ اصلی عدت کے بعد کے زمانہ کے منسوخ ہونے کا ہے تو خیر ورنہ اس بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے، وہ کہتے ہیں خاوند کے گھر میں عدت گزارنی ضروری ہے اور اس کی دلیل موطا مالک کی حدیث ہے کہ حضرت ابوسعید خدری کی ہمشیرہ صاحبہ فریعہ بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا ہمارے غلام بھاگ گئے تھے جنہیں ڈھونڈنے کیلئے میرے خاوند گئے قدوم میں ان غلاموں سے ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے آپ کو قتل کر دیا ان کا کوئی مکان نہیں جس میں عدت گزاروں اور نہ کچھ کھانے پینے کو ہے اگر آپ اجازت دیں تو اپنے میکے چلی جاؤں اور وہیں عدت پوری کروں، آپ نے فرمایا اجازت ہے، میں لوٹی ابھی تو میں حجرے میں ہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا خود بلایا اور فرمایا تم نے کیا کہا، میں نے پھر قصہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی گھر میں ہی ٹھہری رہو یہاں تک کہ عدت گزر جائے، چنانچہ میں نے وہیں عدت کا زمانہ پورا کیا یعنی چار مہینے دس دن۔ حضرت عثمان کے زمانہ میں آپ نے مجھے بلوایا اور مجھ سے یہی مسئلہ پوچھا، میں نے اپنا یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سمیت سنایا، حضرت عثمان نے بھی اسی کی پیروی کی اور یہی فیصلہ دیا، اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں۔