يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿254﴾
‏ [جالندھری]‏ اے ایمان والو جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کرلو جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہوا ور نہ دوستی اور سفارش ہوسکے اور کفر کرنے والے لوگ ظالم ہیں ‏
تفسیر
آج کے صدقات قیامت کے دن شریکِ غم ہوں گے
اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ بھلائی کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں تاکہ اللہ تعالٰی کے پاس ان کا ثواب جمع رہے، اور پھر فرماتا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی خیرات و صدقات کر لو، قیامت کے دن نہ تو خرید و فروخت ہوگی نہ زمین بھر کر سونا دینے سے جان چھوٹ سکتی ہے، نہ کسی کا نسب اور دوستی و محبت کچھ کام آ سکتی ہے، جیسے اور جگہ ہے (آیت فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتساء لون) یعنی جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ تو نسب رہے گا نہ کوئی کسی کا پرسان حال ہوگا، اور اس دن سفارشیوں کی سفارش بھی کچھ نفع نہ دیگی۔ پھر فرمایا کافر ہی ظالم ہیں یعنی پورے اور پکے ظالم ہیں وہ جو کفر کی حالت ہی میں اللہ سے ملیں، عطا بن دینار کہتے ہیں شکر ہے اللہ نے کافروں کو ظالم فرمایا لیکن ظالموں کو کافر نہیں فرمایا۔