يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ﴿276﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا ‏
تفسیر
سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے
اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب، جیسے ہےآیت قل لا یستوی الخبیث والطیب الخ، یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے۔ ارشاد فرمایا آیت ویجعل الخبیث بعضہ علی بعض فیر کم فیجعلہ فی جہنم۔ الایہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کرکے وہ جہنم میں جھونک دے گا اور جگہ ہےآیت وما اوتیتم من ربا الخ، یعنی سود دے کر جو مال تم بڑھانا چاہتے ہو وہ دراصل بڑھتا نہیں، اسی واسطے حضرت عبداللہ بن مسعود والی روایت میں ہے کہ سود سے اگر مال میں اضافہ ہو بھی جائے لیکن انجام کار کمی ہوتی ہے (مسند احمد) مسند کی ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق مسجد سے نکلے اور اناج پھیلا ہوا دیکھ کر پوچھا یہ غلہ کہاں سے آیا؟ لوگوں نے کہا بکنے کیلئے آیا ہے، آپ نے دعا کی کہ اللہ اس میں برکت دے، لوگوں نے کہا یہ غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے پہلے ہی جمع کر لیا تھا، پوچھا کس نے جمع کیا تھا، لوگوں نے کہا ایک تو فروخ نے جو حضرت عثمان کے مولی ہیں اور دوسرے آپ کے آزاد کردہ غلام نے، آپ نے دونوں کو بلوایا اور فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا؟ جواب دیا کہ ہم اپنے مالوں سے خریدتے ہیں اور جب چاہیں بیچیں، ہمیں اختیار ہے، آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں میں مہنگا بیچنے کے خیال سے غلہ روک رکھے اسے اللہ مفلس کردے گا، یہ سن کر حضرت فروخ تو فرمانے لگے کہ میری توبہ ہے میں اللہ سے اور پھر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ پھر یہ کام نہ کروں گا لیکن حضرت عمر کے غلام نے پھر بھی یہی کہا کہ ہم اپنے مال سے خریدتے ہیں اور نفع اٹھا کر بیچتے ہیں، اس میں کیا حرج ہے؟ راوی حدیث حضرت ابویحییٰ فرماتے ہیں میں نے پھر دیکھا کہ اسے جذام ہو گیا اور جذامی (کوڑھ) بنا پھرتا تھا، ابن ماجہ میں ہے جو شخص مسلمانوں کا غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے روک رکھے اللہ تعالٰی اسے مفلس کر دے گا یا جذامی۔ پھر فرماتا ہے وہ صدقہ کو بڑھاتا ہے۔ یربی کی دوسری قرأت یربی بھی ہے، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور بھی خیرات کرے اسے اللہ تبارک و تعالٰی اپنی داہنے ہاتھ لیتا ہے پھر اسے پال کر بڑا کرتا ہے (جس طرح تم لوگ اپنے بچھڑوں کو پالتے ہو) اور اس کا ثواب پہاڑ کے برابر بنا دیتا ہے اور پاک چیز کے سوا وہ ناپاک چیز کو قبول نہیں فرماتا، ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کھجور کا ثواب حد پہاڑ کے برابر ملتا ہے، اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ مثل احد کے ہو کر ملتا ہے، پس تم صدقہ خیرات کیا کرو، پھر فرمایا ناپسندیدہ کافروں، نافرمان زبان زور اور نافرمان فعل والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صدقہ خیرات نہ کریں اور اللہ کی طرف سے صدقہ خیرات کے سبب مال میں اضافہ کے وعدہ کی پرواہ کئے بغیر دنیا کا مال دینار جمع کرتے پھریں اور بدترین اور خلاف شرع طریقوں سے کمائیاں کریں لوگوں کے مال باطل اور ناحق طریقوں سے کھا جائیں، یہ اللہ کے دشمن ہیں ان ناشکروں اور گنہگاروں سے اللہ کا پیار ممکن نہیں۔ پھر ان بندوں کی تعریف ہو رہی ہے جو اپنے رب کے احکام کی بجا آوری کریں، مخلوق کے ساتھ سلوک و احسان قائم کریں، نمازیں قائم کریں، زکوۃ دیتے رہیں، یہ قیامت کے دن تمام دکھ درد سے امن میں رہیں گے کوئی کھٹکا بھی ان کے دل پر نہ گزرے گا بلکہ رب العالمین اپنے انعام و اکرام سے انہیں سرفراز فرمائے گا۔