وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ ﴿48﴾
‏ [جالندھری]‏ اور وہ انہیں لکھا (پڑھنا) اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
فرشتوں کا مریم سے خطاب
فرشتے حضرت مریم سے کہتے ہیں کہ تیرے اس لڑکے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پروردگار عالم لکھنا سکھائے گا حکمت سکھائے گا لفظ حکمت کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے، اور اسے توراۃ سکھائے گا جو حضرت موسیٰ بن عمران پر اتری تھی اور انجیل سکھائے گا جو حضرت عیسیٰ ہی پر اتری، چنانچہ آپ کو یہ دونوں کتابیں حفظ تھیں، انہیں بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجے گا، اور اس بات کو کہنے کے لئے کہ میرا یہ معجزہ دیکھو کہ مٹی لی اس کا پرندہ بنایا پھر پھونک مارتے ہی وہ سچ مچ کا جیتا جاگتا پرند بن کر سب کے سامنے اڑنے لگا، یہ اللہ کے حکم اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے سبب تھا، حضرت عیسیٰ کی اپنی قدرت سے نہیں یہ ایک معجزہ تھا جو آپ کی نبوت کا نشان تھا، اکمہ اس اندھے کو کہتے ہیں جسے دن کے وقت دکھائی نہ دے اور رات کو دکھائی دے، بعض نے کہا اکمہ اس نابینا کو کہتے ہیں جسے دن کو دکھائی دے اور رات کو دکھائی نہ دے، بعض کہتے ہیں بھینگا اور ترچھا اور کانا مراد ہے، بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جو ماں کے پیٹ سے بالکل اندھا پیدا ہوا ہو، یہاں یہی ترجمہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں معجزے کا کمال یہی ہے اور مخالفین کو عاجز کرنے کے لئے اس کی یہ صورت اور صورتوں سے اعلیٰ ہے، ابرص سفید دانے والے کوڑھی کو کہتے ہیں ایسی بیمار بھی اللہ جل شانہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ اچھے کر دیتے تھے اور مردوں کو بھی اللہ عزوجل کے حکم سے آپ زندہ کر دیا کرتے تھے، اکثر علماء کا قول ہے کہ ہر ہر زمانے کے نبی کو اس زمانے والوں کی مناسبت سے خاص خاص معجزات حضرت باری غراسمہ نے عطا فرمائے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو کا بڑا چرچا تھا اور جادو گروں کی بڑی قدرو تعظیم تھی تو اللہ تعالٰی نھے آپ کو وہ معجزہ دیا جس سے تمام جادوگروں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان پر حیرت طاری ہو گئی اور انہیں کامل یقین ہو گیا کہ یہ تو الہ واحد و قہار کی طرف سے عطیہ ہے جادو ہرگز نہیں چنانچہ ان کی گردنیں جھک گئیں اور یک لخت وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور بالاخر اللہ کے مقرب بندے بن گئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طبیبوں اور حکیموں کا دور دورہ تھا۔ کامل اطباء اور ماہر حکیم علم طب کے پورے عالم اور لاجواب کامل الفن استاد موجود تھے پس آپ کو وہ معجزے دے گئے جس سے وہ سب عاجز تھے بھلا مادر زاد اندھوں کو بالکل بینا کر دینا اور کوڑھیوں کو اس مہلک بیماری سے اچھا کر دینا اتنا ہی نہیں بلکہ جمادات جو محض بےجان چیز ہے اس میں روح ڈال دینا اور قبروں میں سے مردوں کو زندہ کر دینا یہ کسی کے بس کی بات نہیں؟ صرف اللہ سبحانہ کے حکم سے بطور معجزہ یہ باتیں آپ سے ظاہر ہوئیں، ٹھیک اسی طرح جب ہمارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت فصاحت بلاغت نکتہ رسی اور بلند خیالی بول چال میں نزانت و لطافت کا زمانہ تھا اس فن میں بلند پایہ شاعروں نے وہ کمال حاصل کر لیا تھا کہ دنیا ان کے قدموں پر جھکتی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ ایسی عطا فرمائی گئی کہ ان سب کو کوندتی ہوئی بجلیاں ماند پڑ گئیں اور کلام اللہ کے نور نے انہیں نیچا دکھایا اور یقین کامل ہو گیا کہ یہ انسانی کلام نہیں، تمام دنیا سے کہدیا گیا اور جتا جتا کر بتا بتا کر سنا سنا کر منادی کر کے بار بار اعلان کیا گیا کہ ہے کوئی؟ جو اس جیسا کلام کہہ سکے؟ اکیلے اکیلے نہیں سب مل جاؤ اور انسان ہی نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو پھر سارے قرآن کے برابر بھی نہیں صرف دس سورتوں کے برابر سہی، اور اچھا یہ بھی نہ سہی ایک ہی سورت اس کی مانند تو بنا کر لاؤ لیکن سب کمریں ٹوٹ گئیں ہمتیں پست ہوگئیں گلے خشک ہوگئے زبان گنگ ہو گئی اور آج تک ساری دنیا سے نہ بن پڑا اور نہ کبھی ہو سکے گا بھلا کہاں اللہ جل شانہ کا کلام اور کہاں مخلوق؟ پس اس زمانہ کے اعتبار سے اس معجزے نے اپنا اثر کیا اور مخالفین کو ہتھیار ڈالتے ہی بن پڑی اور جوق درجوق اسلامی حلقے بڑھتے گئے۔ پھر حضرت مسیح کا اور معجزہ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے فرمایا بھی اور کر کے بھی دکھایا بھی، کہ جو کوئی تم میں سے آج اپنے گھر سے جو کچھ کھا کر آیا ہو میں اسے بھی اللہ تعالٰی کی دی ہوئی اطلاع بتا دوں گا یہی نہیں بلکہ کل کے لئے بھی اس نے جو تیاری کی ہو گی مجھے اللہ تعالٰی کے معلوم کرانے پر معلوم ہو جاتا ہے، یہ سب میری سچائی کی دلیل ہے کہ میں جو تعلیم تمہیں دے رہا ہوں وہ برحق ہے ہاں اگر تم میں ایمان ہی نہیں تو پھر کیا؟ میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کو بھی ماننے والا اس کی سچائی کا دنیا میں اعلان کرنے والا ہوں، میں تم پر بعض وہ چیزیں حلال کرنے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے تم پر حرام کی گئی ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے توراۃ کے بعض احکام منسوخ کئے ہیں، گو اس کے خلاف بھی مفسرین کا خیال ہے، لیکن درست بات یہی ہے کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تورات کا کوئی حکم آپ نے منسوخ نہیں کیا البتہ بعض حلال چیزوں میں جو اختلاف تھا اور بڑھتے بڑھتے گویا ان کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی حقیقت بیان فرما دی اور ان کے حلال ہونے پر مہر کر دی، جیسے قرآن حکیم نے اور جگہ فرمایا ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ میں تمہارے بعض آپس کے اختلاف میں صاف فیصلہ کر دونگا واللہ اعلم، پھر فرمایا کہ میرے پاس اپنی سچائی کی اللہ جل شانہ کی دلیلیں موجود ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو، جس کا خلاصہ صرف اسی قدر ہے کہ اسے پوجو جو میرا اور تمہارا پالنہار ہے سیدھی اور سچی راہ تو صرف یہی ہے۔