إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ ﴿90﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ایسوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی اور یہ لوگ گمراہ ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
جب سانس ختم ہونے کو ہوں تو توبہ قبول نہیں ہوگی
ایمان کے بعد پھر اسی کفر پر مرنے والوں کو پروردگار عالم ڈرا رہا ہے کہ موت کے وقت تمہاری توبہ قبول نہیں ہو گی جیسے اور جگہ ہے(آیت ولیست التوبۃ للذین الخ،) آخر دم تک یعنی موت کے وقت تک گناہوں میں مبتلا رہنے والے موت کو دیکھ کر جو توبہ کریں وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں اور یہی یہاں ہے کہ ان کی توبہ ہرگز مقبول نہ ہو گی اور یہی لوگ وہ ہیں جو راہ حق سے بھٹک کر باطل راہ پر لگ گئے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے پھر مرتد ہوگئے پھر اسلام لائے پھر مرتد ہوگئے پھر اپنی قوم کے پاس آدمی بھیج کر بچھوایا کہ کیا اب ہماری توبہ ہے؟ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اس پر یہ آیت اتری (بزار) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر پر مرنے والوں کی کوئی نیکی قبول نہیں گو اس نے زمین بھر کر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن جذعان جو بڑا مہمان نواز غلام آزاد کرنے والا اور کھانا پینا دینے والا شخص تھا کیا اسے اس کی یہ نیکی کام آئے گی؟ تو آپ نے فرمایا نہیں اس نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی (آیت رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین) نہیں کیا یعنی اے میرے رب میری خطاؤں کو قیامت والے دن بخش جس طرح اس کی خیرات نامقبول ہے اسی طرح فدیہ اور معاوضہ بھی، جیسے اور جگہ ہے (آیت ولا یقبل منھا عدل ولا تنفعھا شفاعتہ) ان سے نہ بدلہ مقبول نہ انہیں سفارش کا نفع اور فرمایا(آیت لا بیع فیہ ولا خلال) اس دن نہ خرید فروخت نہ موت و محبت اور جگہ ارشاد ہے (آیت ان الذین کفروا لوان لھم الخ، یعنی اگر کافروں کے پاس زمین میں جو کچھ ہے اور اتنا ہی اور بھی ہو پھر وہ اس سب کو قیامت کے عذابوں کے بدلے فدیہ دیں تو بھی نامقبول ہے ان تکلیف والے الم ناک عذابوں کو سہنا پڑے گا، یہی مضمون یہاں بھی بیان فرمایا گیا ہے بعض نے افتدی کی واؤ کو زائد کہا ہے لیکن واؤ کو عطف کی ماننا اور وہ تفسیر کرنا جو ہم نے کی بہت بہتر ہے واللہ اعلم، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے عذاب سے کفار کو کوئی چیز نہیں چھڑا سکتی چاہے وہ بڑے نیک اور نہایت سخی ہوں گو زمین بھر بھر کر سونا راہ اللہ لٹائیں یا پہاڑوں اور ٹیلوں کی مٹی اور ریت نرم زمین اور سخت زمین کی خشکی اور تری کے ہم وزن سونا عذاب کے بدلے دینا چاہیں یا دیں، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنمی سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ زمین پر جو کچھ ہے اگر تیرا ہو جائے تو کیا تو اس کو ان سزاؤں کے بدلے اپنے فدیے میں دے ڈالے گا۔ وہ کہے گا ہاں تو جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ میں نے تجھ سے بہ نسبت اس کے بہت ہی کم چاہا تھا، میں نے تجھ سے اس وقت وعدہ لیا تھا جب تو اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شرک نہ بنانا لیکن تو شرک کئے بغیر نہ رہا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی دوسری سند کے ساتھ ہے، مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسے جنتی کو لایا جائے گا جس سے اللہ تعالٰی فرمائے گا کہو تم نے کیسی جگہ پائی؟ وہ جواب دے گا اللہ بہت ہی بہتر۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اور کچھ مانگنا ہو تو مانگو دل میں جو تمنا ہو کہو تو یہ کہے گا باری تعالٰی میری صرف یہی تمنا ہے اور میرا یہی ایک سوال ہے کہ مجھے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے میں تیری راہ میں جہاد کروں اور پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ ہوجاؤں پھر شہید کیا جاؤں دس مرتبہ ایسا ہی ہو کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت اور شہید کے مرتبے دیکھ چکا ہو گا اسی طرح ایک جہنمی کو بلایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنی جگہ کیسی پائی؟ وہ کہے گا اللہ بہت ہی بری۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا کیا ساری زمین بھر کر سونا دے کر ان عذابوں سے چھوٹنا تجھے پسند ہے؟ وہ کہے گا ہاں اے باری تعالٰی اس وقت جناب باری تعالٰی فرمائے گا تو جھوٹا ہے میں نے تو اس سے بہت ہی کم اور بالکل آسان چیز تجھ سے طلب کی تھی لیکن تو نے اسے بھی نہ کیا چنانچہ وہ جہنم میں بھیج دیا جائے گا، پس یہاں فرمایا ان کے لئے تکلیف دہ عذاب ہیں اور ایسا نہیں جو ان عذابوں سے اپنے آپ کو چھڑا سکے یا کوئی ان کی کس طرح مدد کر سکے (اللہ تعالٰی ہمیں اپنے عذاب سے نجات دے۔ آمین)

‎ ‎