لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ ﴿113﴾
‏ [جالندھری]‏ یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ (حکم خدا پر) قائم بھی ہیں جو رات کے وقت خدا کی آیتیں پڑھتے اور (اسکے آگے) سجدے کرتے ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
ظلم نہیں سزا 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں اہل کتاب اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم برابر نہیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں ایک مرتبہ دیر لگا دی پھر جب آئے تو جو اصحاب منتظر تھے ان سے فرمایا کسی دین والا اس وقت تک اللہ کا ذکر نہیں کر رہا مگر صرف تم ہی اللہ کے ذکر میں ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن اکثر مفسرین کا قول ہے کہ اہل کتاب کے علماء مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام حضرت اسد بن عبید ، حضرت ثعلبہ بن شعبہ وغیرہ کے بارے میں یہ آیت آئی کہ یہ لوگ ان اہل کتاب میں شامل نہیں جن کی مذمت پہلے گزاری، بلکہ یہ باایمان جماعت امر اللہ پر قائم شریعت محمدیہ کی تابع ہے استقامت و یقین اس میں ہے یہ پاکباز لوگ راتوں کے وقت تہجد کی نماز میں بھی اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور لوگوں کو بھی انہی باتوں کا حکم کرتے ہیں ان کے خلاف سے روکتے ہیں نیک کاموں میں پیش پیش رہا کرتے ہیں اب اللہ تعالٰی انہیں خطاب عطا فرماتا ہے کہ یہ صالح لوگ ہیں اور سورت کے آخر میں بھی فرمایا آیت (وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ) الخ، بعض اہل کتاب اللہ تعالٰی پر اس قرآن پر اور توراۃ و انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہتے ہیں یہاں بھی فرمایا کہ ان کے یہ نیک اعمال ضائع نہ ہوں بلکہ پورا بدلہ ملے گا، تمام پرہیزگار لوگ اللہ کی نظروں میں ہیں وہ کسی کے اچھے عمل کو برباد نہیں کرتا۔ وہاں ان بےدین لوگوں کو اللہ کے ہاں نہ مال نفع دے گا نہ اولاد یہ تو جہنمی ہیں ۔ صر کے معنی سخت سردی کے ہیں جو کھیتوں کو جلا دیتی ہے، غرض جس طرح کسی کی تیار کھیتی پر برف پڑے اور وہ جل کر خاکستر ہو جائے نفع چھوڑ اصل بھی غارت ہو جائے اور امیدوں پر پانی پھر جائے اسی طرح یہ کفار ہیں جو کچھ یہ خرچ کرتے ہیں اس کا نیک بدلہ تو کہاں اور عذاب ہوگا۔ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ظلم نہیں بلکہ یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا ہے۔