فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ﴿159﴾
‏ [جالندھری]‏ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے ہیں تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے تو ان کو معاف کر دو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشاورت لیا کرو اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو بیشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 
اللہ تعالٰی اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لئے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کر دیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ما صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت (فبما نقضھم) الخ، میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے آیت (عما قلیل) میں اسی طرح یہاں ہے، یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم دل ہوا ہے، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے آیت (لقد جاءکم) الخ، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ باہلی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابو امامہ بعض مومن وہ ہیں جن کے لئے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے، (فظاً) سے مراد یہاں سخت کلام ہے۔ کیونکہ اس کے بعد (غلیظ القلب) کا لفظ ہے، یعنی سخت دل، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالٰی نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنا دیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لئے محبت اور نرمی عطا فرمائی، اور تا کہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام سخت دل بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ درگذر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں، ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا، چنانچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگذر کر، ان کے لئے استغفار کر، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرو، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لئے مشورہ لیا اور صحابہ نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک انعماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی طرح کہدیں٠ کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے، اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو؟ اور منذر بن عمرو نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہئے چنانچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کر لی جائے؟ تو حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کر لیا اور مصالحت چھوڑ دی، اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں؟ تو حضرت صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چنانچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانو مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے اور آپ نے حضرت عائشہ کی جدائی کے لئے حضرت علی اور حضرت اسامہ سے مشورہ لیا، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھی، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت میں حضرت ابوبکر و عمر سے مشورہ کرنے کا حکم ہے (حاکم) یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں (کلبی) مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہو جائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا (ابن مردویہ) ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہے، ابو داؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے، امام ترمذی علیہ الرحمہ اسے حسن کہتے ہیں، اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہئے بھلی بات کا مشورہ دے (ابن ماجہ) پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اب اللہ تعالٰی پر بھروسہ کرو اللہ تعالٰی بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گذرا ہے کہ آیت (وما النصر الا من عند اللہ العزیز الحکیم) یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہئے۔ پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے، ابن عباس فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں کے کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری (ترمذی) اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت (وما کان) اتری، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کر سکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپا لے اور امت تک نہ پہنچائے۔ 
یغل کے معنی اور خائن
یغل کو "یے" کے پیش سے بھی پڑھا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ نبی کی ذات ایسی نہیں کہ ان کے پاس والے ان کی خیانت کریں، چنانچہ حضرت قتادہ اور حضرت ربیع سے مروی ہے کہ بدر کے دن آپ کے اصحاب نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لیے لیا تھا اس پر یہ آیت اتری (ابن جریر) پھر خائن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور سخت عذاب کی خبر دی جاتی ہے۔ احادیث میں بھی اس کی بابت کچھ سخت وعید ہے چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ شخص ہے جو پڑوسی کے کھیت کی زمین یا اس کے گھر کی زمیں دبا لے اگر ایک ہاتھ زمین بھی نا حق اپنی طرف کر لے گا تو ساتوں زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا مسند کی ایک اور حدیث میں ہے جسے ہم حاکم بنائے اگر اس کا گھر نہ ہو تو وہ گھر بنا سکتا ہے، بیوی نہ ہو تو کر سکتا ہے ، اس کے سوا اگر کچھ اور لے گا تو خائن ہو گا، یہ حدیث ابو داؤد میں بھی دیگر الفاظ سے منقول ہے، ابن جریر کی حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تم میں سے اس شخص کو پہچانتا ہوں جو چلاتی ہوئی بکری کو اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اور میرا نام لے لے کر مجھے پکارے گا میں کہدوں گا کہ میں اللہ تعالٰی کے پاس تجھے کام نہیں آسکتا میں تو پہنچا چکا تھا اسے بھی میں پہچانتا ہوں جو اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا جو بول رہا ہو گا یہ بھی کہے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں تیرے لئے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تو تبلیغ کر چکا تھا اور میں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کو لادے ہوئے آئے گا جو ہنہنا رہا ہو گا وہ بھی مجھے پکارے گا اور میں کہدوں گا کہ میں تو پہنچا چکا تھا آج کچھ کام نہیں آسکتا اور اس شخص کو بھی میں پہچانتا ہوں جو کھالیں لئے ہوئے حاضر ہو گا اور کہہ رہا ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں اللہ کے پاس کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا میں تجھے حق و باطل بتا چکا تھا، یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا جسے ابن البتیہہ کہتے تھے یہ جب زکوٰۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ ہمارے تحفے کا یہ اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم میں سے جو کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے لے گا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اونٹ ہے تو چلا رہا ہو گا۔ گائے ہے تو بول رہی ہو گی بکری ہے تو چیخ رہی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور تین مرتبہ فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا؟ مسند احمد کی ایک ضعیف حدیث میں ہے ایسے تحصیلداروں اور حاکموں کو جو تحفے ملیں وہ خیانت ہیں یہ روایت صرف مسند احمد میں ضعیف ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اگلی مطول روایت کا ماحاصل ہے، ترمذی میں ہے حضرت معاذ بن جبل میں رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن میں بھیجا جب میں چل دیا تو آپ نے مجھے بلوایا جب میں واپس آیا تو فرمایا میں نے تمہیں صرف ایک بات کہنے کے لئے بلوایا ہے کہ میری اجازت کے بغیر تم جو کچھ لو گے وہ خیانت ہے اور ہر خائن اپنی خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے گا بس یہی کہنا تھا جاؤ اپنے کام میں لگو، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز کھڑے ہو کر خیانت کا ذکر کیا اور اس کے بڑے بڑے گناہ اور وبال بیان فرما کر ہمیں ڈرایا پھر جانوروں کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد رسی کی عرض کرنے اور آپ کے انکار کر دینے کا ذکر کیا جو پہلے بیان ہو چکا ہے اس میں سونے چاندی کا ذکر بھی ہے، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگ جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری حضرت سعید بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں، فرمایا کیوں؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا، آپ نے فرمایا ہاں اب بھی سنو ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہئے کہ تھوڑا بہت سب کچھ لائے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے، یہ حدیث مسلم اور ابو داؤد میں بھی ہے حضرت رافع فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریباً مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے تف ہے تجھے میں سمجھا آپ مجھے فرما رہے ہیں چنانچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے اسے میں نے قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا اس نے ایک چادر لے لی وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے۔ (مسند احمد) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لیتے پھر فرماتے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جو تم میں سے کسی ایک کا، خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیامت کے دن ہو گی سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی اللہ تعالٰی کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو، وطن میں بھی اور سفر میں بھی جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جہاد کی وجہ سے اللہ تعالٰی مشکلات سے اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے، اللہ کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے کی ملامت تمہیں نہ روکے (مسند احمد) اس حدیث کا بعض حصہ ابن ماجہ میں بھی مروی ہے، حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا اے ابو مسعود جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہو، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو میں نہیں جاتا آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں (ابو داؤد) ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی پتھر جہنم میں ڈالا جائے تو ستر سال تک چلتا رہے لیکن تہہ کو نہیں پہنچتا خیانت کی چیز کو اسی طرح جہنم میں پھینک دیا جائے گا، پھر خیانت والے سے کہا جائے گا جا اسے لے آ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے آیت (ومن یغلل یات بما غل یوم القیامتہ) مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام آنے لگے اور کہنے لگے فاں شہید ہے فلاں شہید ہے جب ایک شخص کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے غنیمت کے مال کی ایک چادر خیانت کر لی تھی پھر آپ نے فرمایا اے عمر بن خطاب تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے چنانچہ میں چلا اور سب میں یہ ندا کر دی، یہ حدیث مسلم اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں، ابن جریر میں ہے کہ ایک دن حضرت عمر نے حضرت عبداللہ بن انیس سے صدقات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا؟ کہ آپ نے صدقات میں خیانت کرنے والے کی نسبت فرمایا اس میں جو شخص اونٹ یا بکری لے لے وہ قیامت والے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا ہاں یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے، ابن جریر میں حضرت سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ انہیں صدقات وصول کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجنا چاہا اور فرمایا اے سعد ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تو بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لائے تو حضرت سعد کہنے لگے کہ نہ میں اس عہدہ کو لوں اور نہ ایسا ہونے کا احتمال رہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کام سے انہیں معاف رکھا، مسند احمد میں ہے کہ حضرت مسلم بن عبدالملک کے ساتھ روم کی جنگ میں حضرت سالم بن عبداللہ بھی تھے ایک شخص کے اسباب میں کچھ خیانت کا مال بھی نکلا سردار لشکر نے حضرت سالم سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھ سے میرے باپ عبداللہ نے اور ان سے ان کی باپ عمر بن خطاب نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے اسباب میں تم چوری کا مال پاؤ اسے جلا دو، راوی کہتا ہے میرا خیال ہے یہ بھی فرمایا اور اسے سزا دو، چنانچہ جب اس کا مال بازار میں نکالا تو اس میں ایک قرآن شریف بھی تھا حضرت سالم سے پھر اس کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے، امام علی بن مدینی اور امام بخاری وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے، امام دارقطنی فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت سالم کا اپنا فتویٰ ہے، حضرت امام احمد اور ان کے ساتھیوں کا قول بھی یہی ہے، حضرت حسن بھی یہی کہتے ہیں حضرت علی فرماتے ہیں اس کا اسباب جلا دیا جائے اور اسے مملوک کی حد سے کم مارا جائے اور اس کا حصہ نہ دیا جائے، ابو حنیفہ مالک شافعی اور جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے یہ کہتے ہیں اس کا اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کے مثل اسے تعزیر یعنی سزا دی جائے، امام بخاری فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خائن کے جنازے کی نماز سے انکار کر دیا اور اس کا اسباب نہیں جلایا، واللہ اعلم، مسند احمد میں ہے کہ قرآن شریفوں کے جب تغیر کا حکم کیا گیا تو حضرت ابن مسعود فرمانے لگے تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اسے چھپا کر رکھ لے کیونکہ جو شخص جس چپز کو چھپا کر رکھ لے گا اسی کو لے کر قیامت کے روز آئے گا، پھر فرمانے لگے میں نے ستر دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی پڑھا ہے پس کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑھائی ہوئی قرأت کو چھوڑ دوں؟ امام وکیع بھی اپنی تفسیر میں اسے لائے ہیں، ابو داؤد میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب مال غنیمت آتا تو آپ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم دیتے ایک مرتبہ ایک شخص اس کے بعد بالوں کا ایک گچھا لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس یہ رہ گیا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے حضرت بلال کی منادی سنی تھی؟ جو تین مرتبہ ہوئی تھی اس نے کہا ہاں فرمایا پھر تو اس وقت کیوں نہ لایا؟ اس نے عذر بیان کیا آپ نے فرمایا اب میں ہرگز نہ لوں گا تو ہی اسے لے کر قیامت کے دن آنا۔ اللہ دو عالم پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شرع پر چل کر اللہ تعالٰی کی رضامندی کے مستحق ہونے والے اس کے ثوابوں کو حاصل کرنے والے اس کے عذابوں سے بچنے والے اور وہ لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور جو مر کر جہنم میں ٹھکانا پائیں گے کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ اللہ کی باتوں کو حق ماننے والا اور اس سے اندھا رہنے والا برابر نہیں، اسی طرح فرمان ہے کہ جن سے اللہ کا اچھا وعدہ ہو چکا ہے اور جو اسے پانے والا ہے وہ اور دنیا کا نفع حاصل کرنے والا برابر نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ بھلائی اور برائی والے مختلف درجوں پر ہیں، وہ جنت کے درجوں میں ہیں اور یہ جہنم کے طبقوں میں جیسا کہ دوسری جگہ ہے آیت (ولکل درجات مما عملوا) ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے مطابق درجات ہیں۔ پھر فرمایا اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے اور عنقریب ان سب کو پورا بدلہ دے گا نہ نیکی ماری جائے گی اور نہ بدی بڑھائی جائے گی بلکہ عمل کے مطابق ہی جزا سزا ہو گی۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہی کی جنس سے ان میں اپنا پیغمبر بھیجا تاکہ یہ اس سے بات چیت کر سکیں پوچھ گچھ کر سکیں ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں اور پوری طرح نفع حاصل کر سکیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (ومن ایاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا) الخ، یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے اس نے پیدا کئے اور جگہ ہے آیت (قل انما انا بشر مثلکم) الخ ، کہدے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے، اور فرمان ہے آیت (وما ارسلنا من قبلک من المرسلین الا انھم لیاکلون الطعام ویمشون فی الاسواق) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو وحی کی تھی جو بستیوں کے رہنے والے تھے اور ارشاد ہے آیت (یا معشر الجن والانس الم یاتکم رسل منکم) یعنی اے جنو اور انسانو کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے؟ الغرض یہ پورا احسان ہے کہ مخلوق کی طرف انہی میں سے رسول بھیجے گئے تاکہ وہ پاس بیٹھ اٹھ کر بار بار سوال جواب کر کے پوری طرح دین سیکھ لیں، پس اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں یعنی قرآن کریم انہیں پڑھاتا ہے اور اچھی باتوں کا حکم دے کر اور برائیوں سے روک کر ان کی جانوں کی پاکیزگی کرتا ہے اور شرک و جاہلیت کی ناپاکی کے اثرات سے زائل کرتا ہے اور انہیں کتاب اور سنت سکھاتا ہے۔ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے تو یہ صاف بھٹکے ہوئے تھے ظاہر برائی اور پوری جہالت میں تھے۔