وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿187﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار لیا کہ (اس میں جو کچھ لکھا ہے) اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا تو انہوں نے اس کو پسِ پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
بدترین خریدوفروخت! 
اللہ تعالٰی یہاں اہل کتاب کو ڈانٹ رہا ہے کہ پیغمبروں کی وساطت سے جو عہد ان کا جناب باری سے ہوا تھا کہ حضور پیغمبر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپ کے ذکر کو اور آپ کی بشارت کی پیش گوئی کو لوگوں میں پھیلائیں گے انہیں آپ کی تابعداری پر آمادہ کریں گے اور پھر جس وقت آپ آجائیں تو دل سے آپ کے تابعدار ہو جائیں گے لیکن انہوں نے اس عہد کو چھپا لیا اور اللہ تعالٰی اس کے ظاہر کرنے پر جن دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا ان سے وعدہ کیا تھا ان کے بدلے دنیا کی تھوڑی سی پونجی میں الجھ کر رہ گئے ان کی یہ خریدو فروخت بد سے بدتر ہے، اس میں علماء کو تنبیہہ ہے کہ وہ ان کی طرح نہ کریں ورنہ ان پر بھی وہی سزا ہوگی جو ان کو ملی اور انہیں بھی اللہ کی وہ ناراضگی اٹھانی پڑے گی جو انہوں نے اٹھائی علماء کرام کو چاہئے کہ ان کے پاس جو نفع دینے والا دینی علم ہو جس سے لوگ نیک عمل جم کر سکتے ہوں اسے پھیلاتے رہیں اور کسی بات کو نہ چھپائیں ، حدیث شریف میں سے جس شخص سے علم کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن آگ کی لگام پہنایا جائے گا۔ دوسری آیت میں ریاکاروں کی مذمت بیان ہو رہی ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جھوٹا دعویٰ کر کے زیادہ مال کمانا چاہے اسے اللہ تعالٰی اور کم کر دے گا، بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں ہے جو نہ دیا گیا ہو اس کے ساتھ آسودگی جتنانے والا دو چھوٹے کپڑے پہننے والے کی مثل ہے، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اگر اپنے کام پر خوش ہونے اور نہ کئے ہوئے کام پر تعریف پسند کرنے کے باعث اللہ کا عذاب ہوگا تو ہم سے کوئی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا، حضرت عبداللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے پھر آپ نے (واذ اخذ اللہ) سے اس آیت کے ختم تک تلاوت کی اور فرمایا کہ ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے اس کا کچھ اور ہی غلط جواب دیا اور باہر نکل کر گمان کرنے لگے کہ ہم نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا جس کی وجہ سے آپ کے پاس ہماری تعریف ہوگی اور سوال کے اصلی جواب کے چھپا لینے اور اپنے جھوٹے فقرہ چل جانے پر بھی خوش تھے، اسی کا بیان اس آیت میں ہے، یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے اور صحیح بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تشریف لے جاتے تو منافقین اپنے گھروں میں گھسے بیٹھے رہتے ساتھ نہ جاتے پھر خوشیاں مناتے کہ ہم لڑائی سے بچ گئے اب جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹتے تو یہ باتیں بناتے جھوٹے سچے عذر پیش کرتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے معذور ہونے کا آپ کو یقین دلاتے اور چاہتے کہ نہ کئے ہوئے کام پر بھی ہماری تعریفیں ہوں جس پر یہ آیت اتری، تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ مروان نے حضرت ابو سعید سے اس آیت کے بارے میں اسی طرح سوال کیا تھا جس طرح اوپر گزرا کہ حضرت ابن عباس سے پچھوایا تو حضرت ابو سعید نے اس کا مصداق اور اس کا شان نزول ان مناقوں کو قرار دیا جو غزوہ کے وقت بیٹھ جاتے اگر مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو بغلیں بجاتے اگر فائدہ ہوا تو اپنا معذور ہونا ظاہر کرتے اور فتح و نصرت کی خوشی کا اظہار کرتے اس پر مروان نے کہا کہاں یہ واقعہ کہاں یہ آیت؟ تو حضرت ابو سعید نے فرمایا کہ یہ زید بن ثابت بھی اس سے واقف ہیں مروان نے حضرت زید سے پوچھا آپ نے بھی اس کی تصدیق کی پھر حضرت ابو سعید نے اونٹنیاں جو صدقہ کی ہیں چھین لیں گے باہر نکل کر حضرت زید نے کہا میری شہادت پر تم میری تعریف نہیں کرتے؟ حضرت ابو سعید نے فرمایا تم نے سچی شہادت ادا کر دی تو حضرت زید نے فرمایا پھر میں بھی سچی شہادت دینے پر مستحق تعریف تو ہوں مروان اس زمانہ میں مدینہ کا امیر تھا، دوسری روایت میں ہے کہ مروان کا یہ سوال رافع بن خدیج سے ہی پہلے ہوا تھا ، اس سے پہلے کی روایت میں گزر چکا ہے کہ مروان نے اس آیت کی بابت حضرت عبداللہ بن عباس سے پچھوایا تھا تو یاد رہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد اور نفی کا عنصر نہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیت عام ہے اس میں بھی شامل ہے اور اس میں بھی، مروان والی روایت میں بھی ممکن ہے پہلے ان دونوں صاحبوں نے جواب دیئے پھر مزید تشفی کے طور پر حبر الامہ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی مروان نے بذریعہ اپنے آدمی کے سوال کیا ہو، واللہ اعلم، حضرت ثابت بن قیس انصاری خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو اپنی ہلاکت کا بڑا اندیشہ ہے آپ نے فرمایا کیوں؟ جواب دیا ایک تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے اس بات سے روکا ہے کہ جو نہ کیا ہو اس پر تعریف کو پسند کریں اور میرا یہ حال ہے کہ میں تعریف پسند کرتا ہوں، دوسری بات یہ ہے کہ تکبر سے اللہ نے روکا ہے اور میں جمال کو پسند کرتا ہوں تیسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنا ممنوع ہے اور میں بلند آواز ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تیری زندگی بہترین اور باخیر ہو اور تیری موت شہادت کی موت ہو اور تو جنتی بن جائے خوش ہو کر کہنے لگے کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے چنانچہ یہی ہوا کہ آپ کی زندگی انتہائی اچھی گزری اور موت شہادت کی نصیب ہوئی، مسیلمہ کذاب سے مسلمانوں کی جنگ میں آپ نے شہادت پائی۔ تحسبنھم کو یحسبنھم پڑھا گیا ہے، پھر فرمان ہے کہ تو انہیں عذاب سے نجات پانے والے خیال نہ کر انہیں عذاب ضرور ہوگا اور وہ بھی درد ناک، پھر ارشاد ہے کہ ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر قادر اللہ تعالٰی ہے اسے کوئی کام عاجز نہیں کر سکتا پس تم اس سے ڈرتے رہو اور اس کی مخالفت نہ کرو اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کرو اس کے عذابوں سے اپنا بچاؤ کر لو نہ تو کوئی اس سے بڑا نہ اس سے زیادہ قدرت والا۔