وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا ﴿5﴾
‏ [جالندھری]‏ اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
کم عقل اور یتیموں کے بارہ میں احکامات
اللہ سبحانہ و تعالٰی لوگوں کو منع فرماتا ہے کہ کم عقل بیویوں کو مال کے تصرف سے روکیں، مال کو اللہ تعالٰی نے تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے مال کے خرچ سے روک دینا چاہئے، مثلاً نابالغ بچہ ہو یا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل بےوقوف ہو اور بےدین ہو بری طرح اپنے مال کو لٹا رہا ہو، اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے وہ اپنے کل مال سے بھی ادا نہیں کر سکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے قبضے سے لے لے گا اور اسے بےدخل کر دے گا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں (سفہاء) سے مراد تیری اولاد اور عورتیں ہیں، اسی طرح حضرت ابن مسعود حکم بن عبینہ حسن اور ضحاک رحمتہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں یتیم مراد ہیں، مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک عورتیں بیوقوف ہیں مگر جو اپنے خاوند کی اطاعت گزار ہوں، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرکش خادم ہیں۔ پھر فرماتا ہے انہیں کھلاؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو ابن عباس فرماتے ہیں یعنی تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو نہ دے ڈال کر پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے بلکہ اپنا مال اپنے قبضے میں رکھ اس کی اصلاح کرتا رہ اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست کر اور ان کے خرچ اٹھا، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں کہ وہ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی قبول نہیں فرماتا، ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور پھر بھی وہ اسے طلاق نہ دے دوسرا وہ شخص جو اپنا مال بیوقوف کو دے دے حالانکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے بیوقوف کو اپنا مال نہ دو تیسرا وہ شخص جس کا فرض کسی پر ہو اور اس نے اس قرض پر کسی کو گواہ نہ کیا ہو۔ ان سے بھلی بات کہو یعنی ان سے نیکی اور صلہ رحمی کرو، اس آیت سے معلوم ہوا کہ محتاجوں سے سلوک کرنا چاہئے اسے جسے بالفعل تصرف کا حق نہ ہو اس کے کھانے کپڑے کی خبر گیری کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ نرم زبانی اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے۔ پھر فرمایا یتیموں کی دیکھ بھال رکھو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں، یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، بچے سے جب تک بالغ نہ ہو، سوتے سے جب جاگ نہ جائے، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے دوسری علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے، تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے، اس میں علماء کے تین قول ہیں ایک یہ کہ علامت بلوغ ہے دوسرے یہ کہ نہیں تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں نہیں اور ذمیوں میں ہے اس لئے کہ ممکن ہے کسی دوا سے یہ بال جلد نکل آتے ہوں اور ذمی پر جواب ہوتے ہی جزیہ لگ جاتا ہے تو وہ اسے کیوں استعمال کرنے لگا؟ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سب کے حق میں یہ علامت بلوغت ہے کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا، سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں۔ بغیر ضروری حاجت کے صرف اس ڈر سے کہ یہ بڑے ہوتے ہی اپنا مال ہم سے لے لیں گے تو ہم اس سے پہلے ہی ان کے مال کو ختم کر دیں ان کا مال نہ کھاؤ۔ جسے ضرورت نہ ہو خود امیر ہو کھاتا پیتا ہو تو اسے تو چاہئے کہ ان کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے، مردار اور بہے ہوئے خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے، ہاں اگر والی مسکین محتاج ہو تو بیشک اسے جائز ہے کہ اپنی پرورش کے حق کے مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے موجب اس مال میں سے کھا پی لے اپنی حاجت کو دیکھیئے اور اپنی محنت کو اگر حاجت محنت سے کم ہو تو حاجت کے مطابق لے اور اگر محنت حاجت سے کم ہو تو محنت کا بدلہ لے لے، پھر ایسا ولی اگر مالدار بن جائے تو اسے اس کھائے ہوئے اور لئے ہوئے مال کو واپس کرنا پڑے گا یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہو گا اس لئے کہ اس نے اپنے کام کے بدلے لے لیا ہے امام شافعی کے ساتھیوں کے نزدیک یہی صحیح ہے، اس لئے کہ آیت میں بغیر بدل کے مباح قرار دیا ہے اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال نہیں ایک یتیم میری پرورش میں ہے تو کیا میں اس کے کھانے سے کھا سکتا ہوں آپ نے فرمایا ہاں اس یتیم کا مال اپنے کام میں لا سکتا بشرطیکہ حاجت سے زیادہ نہ اڑا نہ جمع کر نہ یہ ہو کہ اپنے مال کو تو بچا رکھے اور اس کے مال کو کھاتا چلا جائے، ابن ابی حاتم میں بھی ایسی ہی روایت ہے، ابن حبان وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں اپنے یتیم کو ادب سکھانے کے لئے ضرورتاً کس چیز سے ماروں؟ فرمایا جس سے تو اپنے بچے کو تنبیہہ کرتا ہے اپنا مال بچا کر اس کا مال خرچ نہ کر نہ اس کے مال سے دولت مند بننے کی کوشش کر، حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس بھی اونٹ ہیں اور میرے ہاں جو یتیم پل رہے ہیں ان کے بھی اونٹ ہیں میں اپنی اونٹنیاں دودھ پینے کے لئے فقیروں کو تحفہ دے دیتا ہوں تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ ان یتیموں کی اونٹنیوں کا دودھ پی لوں؟ آپ نے فرمایا اگر ان یتیموں کی گم شدہ اونٹنیوں کی کو تو ڈھونڈ لاتا ہے ان کے چارے پانی کی خبر گیری رکھتا ہے ان کے حوض درست کرتا رہتا ہے اور ان کی نگہبانی کیا کرتا ہے تو بیشک دودھ سے نفع بھی اٹھا لیکن اس طرح کہ نہ ان کے بچوں کو نقصان پہنچے نہ حاجت سے زیادہ لے، (موطا مالک) حضرت عطاء بن رباح حضرت عکرمہ حضرت ابراہیم نخعی حضرت عطیہ عوفی حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے دوسرا قول یہ ہے کہ تنگ دستی کے دور ہو جانے کے بعد وہ مال یتیم کو واپس دینا پڑے گا اس لئے کہ اصل تو ممانعت ہے البتہ ایک وجہ سے جواز ہو گیا تھا جب وہ وجہ جاتی رہی تو اس کا بدل دینا پڑے گا جیسے کوئی بےبس اور مضطر ہو کر کسی غیر کا مال کھا لے لیکن حاجت کے نکل جانے کے بعد اگر اچھا وقت آیا تو اسے واپس دینا ہو گا، دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب تخت خلافت پر بیٹھے تو اعلان فرمایا تھا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے والی کی حیثیت ہے اگر مجھے ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا جب آسانی ہوئی پھر واپس کر دوں گا (ابن ابی الدنیا) یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہے اور اس کو اسناد صحیح ہے، بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے، ابن عباس سے آیت کے اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ بطور قرض کھائے اور بھی مفسرین سے یہ مروی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں معروف سے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھائے اور روایت میں آپ سے یہ مروی ہے کہ وہ اپنے ہی مال کو صرف اپنی ضرورت پوری ہو جانے کے لائق ہی خرچ کرے تا کہ اسے یتیم کے مال کی حاجت ہی نہ پڑے، حصرت عامر شعبی فرماتے ہیں اگر ایسی بےبسی ہو جس میں مردار کھانا جائز ہو جاتا ہے تو بیشک کھا لے لیکن پھر ادا کرنا ہوگا، یحییٰ بن سعید انصار اور ربیعہ سے اس کی تفسیریوں مروی ہے کہ اگر یتیم فقیر ہو تو اس کا ولی اس کی ضرورت کے موافق دے اور پھر اس ولی کو کچھ نہ ملے گا، لیکن عبارت یہ ٹھیک نہیں بیٹھتا اس لئے کہ اس سے پہلے یہ جملہ بھی ہے کہ جو غنی ہو وہ کچھ نہ لے، یعنی جو ولی غنی ہو تو یہاں بھی یہی مطلب ہو گا جو ولی فقیر ہو نہ یہ کہ جو یتیم فقیر ہو، دوسری آیت میں ہے آیت (ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ہی احسن حتی یبلغ اشدہ) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ ہاں بطور اصلاح کے پھر اگر تمہیں حاجت ہو تو حسب حاجت بطریق معروف اس میں سے کھاؤ پیو پھر اولیاء سے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آچکی ہے تو گواہ رکھ کر ان کے مال ان کے سپرد کر دو، تا کہ انکار کرنے کا وقت ہی نہ آئے، یوں تو دراصل سچا شاہد اور پورا نگراں اور باریک حساب لینے والا اللہ ہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ولی نے یتیم کے مال میں نیت کیسی رکھی؟ آیا خورد برد کیا تباہ و برباد کیا جھوٹ سچ حساب لکھا اور دیا یا صاف دل اور نیک نیتی سے نہایت چوکسی اور صفائی سے اس کے مال کا پورا پورا خیال رکھا اور حساب کتاب صاف رکھا، ان سب باتوں کا حقیقی علم تو اسی دانا و بینا نگران و نگہبان کو ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا اے ابوذر میں تمہیں ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے لئے چاہتا ہوں وہی تیرے لئے بھی پسند کرتا ہوں خبردار ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار اور امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا۔