يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿11﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مزید مسائل میراث جن کا ہر مسلمان کو جاننا فرض ہے
یہ آیت کریمہ اور اس کے بعد کی آیت اور اس سورت کے خاتمہ کی آیت علم فرائض کی آیتیں ہیں، یہ پورا علم ان آیتوں اور میراث کی احادیث سے استنباط کیا گیا ہے، جو حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر اور توضیح ہیں، یہاں ہم اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں باقی جو میراث کے مسائل کی پوری تقریر ہے اور اس میں جن دلائل کی سمجھ میں جو کچھ اختلاف ہوا ہے اس کے بیان کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر، اللہ تعالٰی ہماری مدد فرمائے، علم فرائض سیکھنے کی رغبت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، ان آیتوں میں جن فرائض کا بیان ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہیں، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے علم دراصل تین ہیں اور اس کے ماسوا فضول بھرتی ہے، آیات قرآنیہ جو مضبوط ہیں اور جن کے احکام باقی ہیں، سنت قائمہ یعنی جو احادیث ثابت شدہ ہیں اور فریضہ عادلہ یعنی مسائل میراث جو ان دو سے ثابت ہیں۔ ابن ماجہ کی دوسری ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔ یہ نصف علم ہے اور یہ بھول بھول جاتے ہیں اور یہی پہلی وہ چیز ہے جو میری امت سے چھن جائے گی، حضرت ابن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے آدھا علم اس لئے کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو عموماً یہ پیش آتے ہیں، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ میری بیمار پرسی کے لئے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا، تو میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی، صحیح مسلم شریف نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی حے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں حضرت سعد کی لڑکیاں ہیں، ان کے والد آپ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے ان کے چچا نے ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کے نکاح بغیر مال کے نہیں ہو سکتے، آپ نے فرمایا اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا چنانچہ آیت میراث نازل ہوئی، آپ نے ان کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے، بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر کے سوال پر اس سورت کی آخری آیت اتری ہوگی جیسے عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالٰی اس لئے کہ ان کی وارث صرف ان کی بہنیں ہی تھیں لڑکیاں تھیں ہی نہیں وہ تو کلالہ تھے اور یہ آیت اسی بارے میں یعنی حضرت سعد بن ربیع کے ورثے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے راوی بھی خود حضرت جابر ہیں ہاں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر میں وارد کیا ہے اس لئے ہم نے بھی ان کی تابعداری کی، واللہ اعلم مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں عدل سکھاتا ہے، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالٰی نے ان کا حصہ بھی مقرر کردیا ہاں دونوں کے حصوں میں فرق رکھا، اس لئے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور خرچ اخراجات کی کفالت تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا، بعض دانا بزرگوں نے یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے، ماں باپ کو ان کی اولادوں کے بارے میں وصیت کر رہا ہے، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے مہربان نہیں جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیدیوں میں سے ایک عورت کا بچہ اس سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے ہی ملا اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا بھلا بتاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے اختیار کے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ پہلے حصہ دار مال کا صرف لڑکا تھا، ماں باپ کو بظور وصیت کے کچھ مل جاتا تھا اللہ تعالٰی نے اسے منسوخ کیا اور لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دلوایا اور ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ دلوایا اور تیسرا حصہ بھی اور بیوی کو آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ اور خاوند کو آدھا اور پاؤ۔ فرماتے ہیں میراث کے احکام اترنے پر بعض لوگوں نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ عورت کو چوتھا اور آٹھواں حصہ دلوایا جا رہا ہے اور لڑکی کو آدھوں آدھ دلوایا جا رہا ہے اور ننھے ننھے بچوں کا حصہ مقرر کیا جا رہا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نہ لڑائی میں نکل سکتا ہے، نہ مال غنیمت لا سکتا ہے اچھا تم اس حدیث سے خاموشی برتو شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھول جائے ہمارے کہنے کی وجہ سے آپ ان احکام کو بدل دیں، پھر انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لڑکی کو اس کے باپ کا آدھا مال دلوا رہے ہیں حالانکہ نہ وہ گھوڑے پر بیٹھنے کے لائق نہ دشمن سے لڑنے کے قابل، آپ بچے کو ورثہ دلا رہے ہیں بھلا وہ کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ یہ لوگ جاہلیت کے زمانہ میں ایسا ہی کرتے تھے کہ میراث صرف اسے دیتے تھے جو لڑنے مرنے کے قابل ہو سب سے بڑے لڑکے کو وارث قرار دیتے تھے (اگر مرنے والے کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہو تو تو فرما دیا کہ لڑکی کو جتنا آئے اس سے دوگنا لڑکے کو دیا جائے یعنی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے تو کل مال کے تین حصے کر کے دو حصے لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے اور اگر صرف لڑکی کو دے دیا جائے اب بیان فرماتا ہے کہ اگر صرف لڑکیاں ہوں تو انہیں کیا ملے گا؟ مترجم) لفظ فوق کو بعض لوگ زائد بتاتے ہیں جیسے آیت (فاضربوا فوق الاعناق آیت میں لفظ فوق زائد ہے لیکن ہم یہ نہیں مانتے نہ اس آیت میں نہ اس آیت میں، کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی زائد چیز نہیں ہے جو محض بےفائدہ ہو اللہ کے کلام میں ایسا ہونا محال ہے، پھر یہ بھی خیال فرمائیے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس کے بعد آیت (فلہن) نہ آتا بلکہ (فلہما) آتا۔ ہاں اسے ہم جانتے ہیں کہ اگر لڑکیاں دو سے زیادہ نہ ہوں یعنی صرف دو ہوں تو بھی یہی حکم ہے یعنی انہیں بھی دو ثلث ملے گا کیونکہ دوسری آیت میں دو بہنوں کو دو ثلث دلوایا گیا ہے اور جبکہ دو بہنیں دو ثلث پاتی ہیں تو دو لڑکیوں کو دو ثلث کیوں نہ ملے گا؟ ان کے لئے تو دو تہائی بطور اولی ہونا چاہئے، اور حدیث میں آچکا ہے دو لڑکیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تہائی مال ترکہ کا دلوایا جیسا کہ اس آیت کی شان نزول کے بیان میں حضرت سعد کی لڑکیوں کے ذکر میں اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے پس کتاب و سنت سے یہ ثابت ہو گیا اسی طرح اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی اگر ہو یعنی لڑکا نہ ہونے کی صورت میں تو اسے آدھوں آدھ دلوایا گیا ہے پس اگر دو کو بھی آدھا ہی دینے کا حکم کرنا مقصود ہوتا تو یہیں بیان ہو جاتا جب ایک کو الگ کر دیا تو معلوم ہوا کہ دو کا حکم وہی ہے جو دو سے زائد کا ہے واللہ اعلم۔ پھر ماں باپ کا حصہ بیان ہو رہا ہے ان کے ورثے کی مختلف صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مرنے والے کی اولاد ایک لڑکی سے زیادہ ہو اور ماں باپ بھی ہوں تو تو انہیں چھٹا چھٹا حصہ ملے گا یعنی چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو، اگر مرنے والے کی صرف ایک لڑکی ہی ہے تو آدھا مال تو وہ لڑکی لے لے گی اور چھٹا حصہ ماں لے لے گی چھٹا حصہ باپ کو ملے گا اور چھٹا حصہ جو باقی رہا وہ بھی بطور عصبہ باپ کو مل جائے گا پس اس حالت میں باپ فرض اور تنصیب دونوں کو جمع کر لے گا یعنی مقررہ چھٹا حصہ اور بطور عصبہ بچت کا مال دوسری صورت یہ ہے کہ صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ مل جائے گا اور باقی کا کل ماں باپ کو بطور عصبہ کے مل جائے گا تو گویا دو ثلث مال اس کے ہاتھ لگے گا یعنی بہ نسبت مال کے دگنا باپ کو مل جائے گا اب اگر مرنے والی عورت کا خاوند بھی ہے مرنے والے مرد کی بیوی ہے یعنی اولاد نہیں صرف ماں باپ ہیں اور خاوند سے یا بیوی تو اس پر تو اتفاق ہے کہ خاوند کو آدھا اور بیوی کو پاؤ ملے گا، پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ماں کو اس صورت میں اس کے بعد کیا ملے گا؟ تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جو مال باقی رہا اس میں سے تیسرا حصہ ملے گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لئے کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے گویا کل مال ہے اور ماں کا حصہ باپ سے آدھا ہے تو اس باقی کے مال سے تیسرا حصہ یہ لے لے اور وہ تیسرے حصے جو باقی رہے وہ باپ لے لے گا حضرت عمر حضرت عثمان اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت حضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہی فیصلہ ہے، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہما کا یہی قول ہے، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی فتویٰ ہے دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ماں کو کل مال کا ثلث مل جائے گا، اس لئے کہ آیت عام ہے خاوند بیوی کے ساتھ ہو تو اور نہ ہو تو عام طور پر میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ثلث دلوایا گیا ہے، حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے، حضرت علی اور حضرت معاذ بن جبل سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ حضرت شریح اور حضرت داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت ابو الحسین بن لبان بصری بھی اپنی کتاب ایجاز میں جو علم فرائض کے بارے میں ہے اسی قول کو پسند کرتے ہیں، لیکن اس قول میں نظر ہے بلکہ یہ قول ضعیف ہے کیونکہ آیت نے اس کا یہ حصہ اس وقت مقرر فرمایا ہے جبکہ کل مال کی وراثت صرف ماں باپ کو ہی پہنچتی ہو، اور جبکہ زوج یا زوجہ سے اور وہ اپنے مقررہ حصے کے مستحق ہیں تو پھر جو باقی رہ جائے گا بیشک وہ ان دونوں ہی کا حصہ ہے تو اس میں ثلث ملے گا، کیونکہ اس عورت کو کل مال کی چوتھائی ملے گی اگر کل مال کے بارہ حصے کئے جائیں تو تین حصے تو یہ لے گی اور چار حصے ماں کو ملے گا باقی بچے پانچ حصے وہ باپ لے لے گا لیکن اگر عورت مری ہے اور اس کا خاوند موجود ہے تو ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا اگر کل مال کا تیسرا حصہ اس صورت میں بھی ماں کو دلوایا جائے تو اسے باپ سے بھی زیادہ پہنچ جاتا ہے مثلاً میت کے مال کے چھ حصے کئے تین تو خاوند لے گیا دو ماں لے گئی تو باپ کے پلے ایک ہی پڑے گا جو ماں سے بھی تھوڑا ہے، اس لئے اس صورت میں چھ میں سے تین تو خاوند کو دئے جائیں گے ایک ماں کو اور دو باپ کو، حضرت امام ابن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا یہی قول ہے، یوں سمجھنا چاہئے کہ یہ قول دو قولوں سے مرکب ہے، ضعیف یہ بھی ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم، ماں باپ کے احوال میں سے تیسرا حال یہ ہے کہ وہ بھائیوں کے ساتھ ہوں خواہ وہ سگے بھائی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے تو وہ باپ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی کے ورثے میں کچھ پائیں گے نہیں لیکن ہاں ماں کو تہائی سے ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے لے گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے بھائیوں کے مترادف ہیں جمہور کا یہی قول ہے، ہاں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ دو بھائی ماں کو ثلث سے ہٹا کر سدس تک نہیں لے جاتے قرآن میں اخوۃ جمع کا لفظ ہے دو بھائی اگر مراد ہوتے اخوان کہا جاتا خلیفہ ثالث نے جواب دیا کہ پہلے ہی سے یہ چلا آتا ہے اور چاروں طرف یہ مسئلہ اسی طرح پہنچا ہوا ہے تمام لوگ اس کے عامل ہیں میں اسے نہیں بدل سکتا، اولاً تو یہ اثر ثابت ہی نہیں اس کے راوی حضرت شعبہ کے بارے میں حضرت امام مالک کی جرح موجود ہے پھر یہ قول ابن عباس کا نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خود حضرت ابن عباس کے خاص اصحاب اور اعلی شاگرد بھی اس کے خلاف ہیں حضرت زید فرماتے ہیں دو کو بھی اخوۃ کہا جاتا ہے، الحمد للہ میں نے اس مسئلہ کو پوری طرح ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے حضرت سعید بن قتادہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، ہاں میت کا اگر ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے حصے سے ہٹا نہیں سکتا، علماء کرام کا فرمان ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کے بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے پینے وغیرہ کا کل خرچ باپ کے ذمہ ہے نہ کہ ماں کے ذمے اس لئے متقضائے حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے، یہ توجیہ بہت ہی عمدہ ہے، لیکن حضرت ابن عباس سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہ چھٹا حصہ جو ماں کا کم ہو گیا انہیں دیدیا جائے گا یہ قول شاذ ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں حضرت عبداللہ کا یہ قول تمام امت کے خلاف ہے، ابن عباس کا قول ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا بیٹا اور باپ نہ ہو۔ پھر فرمایا وصیت اور قرض کے بعد تقسیم میراث ہو گی، تمام سلف خلف کا اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے اور فحوائے آیت کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے، ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں تم قرآن میں وصیت کا حکم پہلے پڑھتے ہو اور قرض کا بعد میں لیکن یاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض پہلے ادا کرایا ہے، پھر وصیت جاری کی ہے، ایک ماں زاد بھائی آپس میں وارث ہوں گے بغیر علاتی بھائیوں کے، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہوگا نہ اس کا جس کی ماں دوسری ہو، یہ حدیث صرف حضرت حارث سے مروی ہے اور ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے، لیکن یہ حافظ فرائض تھے اس علم میں آپ کو خاص دلچسپی اور دسترس تھی اور حساب کے بڑے ماہر تھے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ ہم نے باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے والا بنایا اور جاہلیت کی رسم ہٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا ماں باپ کو صرف بطور وصیت کے ملتا تھا جیسے حضرت ابن عباس سے پہلے بیان ہو چکا یہ منسوخ کر کے اب یہ حکم ہوا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہیں باپ سے زیادہ نفع پہنچے گا یا اولاد نفع دے گی امید دونوں سے نفع کی ہے یقین کسی پر بھی ایک سے زیادہ نہیں، ممکن ہے باپ سے زیادہ بیٹا کام آئے اور نفع پہنچائے اور ممکن ہے بیٹے سے زیادہ باپ سے نفع پہنچے اور وہ کام آئے، پھر فرماتا ہے یہ مقررہ حصے اور میراث کے یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض ہیں اس میں کسی کمی پیشی کی کسی امید یا کسی خوف سے گنجائش نہیں نہ کسی کو محروم کر دینا لائق سے نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا، اللہ تعالٰی علیم و حکیم ہے جو جس کا مستحق ہے اسے اتنا دلواتا ہے ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے تمہارے نفع نقصان کا اسے پورا علم ہے اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں تمہیں چاہئے کہ اس کے احکام اس کے فرمان مانتے چلے جاؤ۔