وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴿15﴾
‏ [جالندھری]‏ مسلمانو! تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے یا خدا ان کے لیے کوئی اور سبیل (پیدا کرے) ‏
تفسیر ابن كثیر
سیاہ کار عورت اور اس کی سزا
ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے تو اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے گھر میں ہی قید کر دیا جائے اور جنم قید یعنی موت سے پہلے اسے چھوڑا نہ جائے، اس فیصلہ کے بعد یہ اور بات ہے کہ اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کر دے، پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب تک سورۃ نور کی آیت نہیں اتری تھی زنا کار عورت کے لئے یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے اور بےشادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم اترا، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت حسن ، حضرت عطاء خرسانی ٫ حضرت ابو صالح ، حضرت قتادہ ، حضرت زید بن اسلم اور حضرت ضحاک کا بھی یہی قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالٰی نے ایک دن اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے نکلے تو آپ نے فرمایا مجھ سے حکم الٰہی لو اللہ تعالٰی نے سیاہ کار عورتوں کے لئے راستہ نکال دیا ہے اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے اور پتھروں سے مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی (مسلم وغیرہ) ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے ساتھ سے مروی ہے، امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں، اسی طرح ابو داؤد میں بھی، ابن مردویہ کی غریبف حدیث میں کنوارے اور بیاہے ہوئے کے حکم کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ دونوں اگر بوڑھے ہوں تو انہیں رجم کر دیا جائے لیکن یہ حدیث غریب ہے، طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورۃ نساء کے اترنے کے بعد اب روک رکھنے کا یعنی عورتوں کو گھروں میں قاید رکھنے کا حکم نہیں رہا، امام احمد کا مذہب اس حدیث کے مطابق یہی ہے کہ زانی شادی شدہ کو کوڑے بھی لگائے جائیں گے اور رجم بھی کیا جائے گا اور جمہور کہتے ہیں کوڑے نہیں لگیں گے صرف رجم کیا جائے گا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اور غامدیہ عورت کو رجم کیا لیکن کوڑے نہیں مارے، اسی طرح دو یہودیوں کو بھی آپ نے رجم کا حکم دیا اور رجم سے پہلے بھی انہیں کوڑے نہیں لگوائے، پھر جمہور کے اس قول کے مطابق معلوم ہوا کہ انہیں کوڑے لگانے کا حکم منسوخ ہے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا اس بےحیائی کے کام کو دو مرد اگر آپس میں کریں انہیں ایذاء پہنچاؤ یعنی برا بھلا کہہ کر شرم و غیرہ دلا کر جوتیاں لگا کر، یہ حکم بھی اسی طرح پر رہا یہاں تک کہ اسے بھی اللہ تعالٰی نے کوڑے اور رجم سے منسوخ فرمایا، حضرت عکرمہ عطاء حسن عبداللہ بن کثیر فرماتے ہیں اس سے مراد بھی مرد و عورت ہیں، سدی فرماتے ہیں مراد وہ نوجوان مرد ہیں جو شادی شدہ نہ ہوں حضرت مجاہد فرماتے ہیں لواطت کے بارے میں یہ آیت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے تم لوطی فعل کرتے دیکھو تو فاعل مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو، ہاں اگر یہ دونوں باز آجائیں اپنی بدکاری سے توبہ کریں اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں اور ٹھیک ٹھاک ہو جائیں تو اب انکے ساتھ درشت کلامی اور سختی سے پیش نہ آؤ، اس لئے کہ گناہ سے توبہ کر لینے والا مثل گناہ نہ کرنے والے کے ہے۔ اللہ تعالٰی توبہ قبول کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کی لونڈی بدکاری کرے تو اس کا مالک اسے حد لگا دے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، یعنی حد لگ جانے کے بعد پھر اسے عار نہ دلایا کرے کیونکہ حد کفارہ ہے۔