إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿17﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بری حرکت کر بیٹھتے ہیں پھر جلد توبہ کر لیتے ہیں پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
عالم نزع سے پہلے توبہ؟ 
مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنے ان بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو ناواقفیت کی وجہ سے کوئی برا کام کر بیٹھیں پھر توبہ کر لیں گو یہ توبہ فرشتہ موت کو دیکھ لینے کے بعد عالم نزع سے پہلے ہو، حضرت مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں جو بھی قصداً یا غلطی سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرے وہ جاہل ہے جب تک کہ اس سے باز نہ آ جائے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں صحابہ کرام فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جو گناہ کرے وہ جہالت ہے، حضرت قتادہ بھی صحابہ کے مجمع سے اس طرح کی روایت کرتے ہیں عطاء اور حضرت ابن عباس سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ توبہ جلدی کر لینے کی تفسیر میں منقول ہے کہ ملک الموت کو دیکھ لینے سے پہلے، عالم سکرات کے قریب مراد ہے، اپنی صحت میں توبہ کر لینی چاہئے، غر غرے کے وقت سے پہلے کی توبہ قبول ہے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں ساری دنیا قریب ہی ہے، اس کے متعلق حدیثیں سنئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک سانسوں کا ٹوٹنا شروع نہ ہو، (ترمذی) جو بھی مومن بندہ اپنی موت سے مہینہ بھر پہلے توبہ کر لے اس کی توبہ اللہ تعالٰی قبول فرما لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے بعد بھی بلکہ موت سے ایک دن پہلے تک بھی بلکہ ایک سانس پہلے بھی جو بھی اخلاص اور سچائی کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکے اللہ تعالٰی اسے قبول فرماتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرے اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو مہینہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالٰی اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ہفتہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالٰی اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ایک دن پہلے توبہ کرے اللہ تعالٰی اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے، یہ سن کر حضرت ایوب نے یہ آیت پڑھی تو آپ نے فرمایا وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، مسند احمد میں ہے کہ چار صحابی جمع ہوئے ان میں سے ایک نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص اپنی موت سے ایک دن پہلے بھی توبہ کر لے اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، دوسرے نے پوچھا کیا سچ مچ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے؟ اس نے کہا ہاں تو دوسرے نے کہا تم نے یہ سنا ہے؟ اس نے کہا ہاں، اس نے کہا میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک سنا ہے کہ جب تک اس کے نرخرے میں روح نہ آ جائے توبہ کے دروازے اس کے لئے بھی کھلے رہتے ہیں، ابن مردویہ میں مروی ہے کہ جب تک جان نکلتے ہوئے گلے سے نکلنے والی آواز شروع نہ ہو تب تک توبہ قبول ہے، کئی ایک مرسل احادیث میں بھی یہ مضمون ہے، حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے جب ابلیس پر لعنت نازل فرمائی تو اس نے مہلت طلب کی اور کہا تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم کہ ابن آدم کے جسم میں جب تک روح رہے گی میں اس کے دل سے نہ نکلوں گا، اللہ تعالٰی عزوجل نے فرمایا مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں بھی جب تک اس میں روح رہے گی اس کی توبہ قبول کروں گا، ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے قریب قریب مروی ہے پس ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک بندہ زندہ ہے اور اسے اپنی حیاتی کی امید ہے تب تک وہ اللہ تعالٰی کی طرف جھکے توبہ کرے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس پر رجوع کرتا ہے اللہ تعالٰی اس علیم و حکیم ہے، ہاں جب زندگی سے مایوس ہو جائے فرشتوں کو دیکھ لے اور روح بدن سے نکل کر حلق تک پہنچ جائے سینے میں گھٹن لگے حلق میں اٹکے سانسوں سے غرغرہ شروع ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا کہ مرتے دم تک جو گناہوں پر اڑا رہے اور موت دیکھ کر کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں تو ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی، جیسے اور جگہ ہے آیت (فلما راوا باسنا قالوا امنا باللہ وحدہ) (دو آیتوں تک) مطلب یہ ہے کہ ہمارے عذابوں کا معائنہ کر لینے کے بعد ایمان کا اقرار کرنا کوئی نفع نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت (یوم یاتی بعض ایات ربک) الخ، مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق سورج کو مغرب کی طرف سے چڑھتے ہوئے دیکھ لے گی اس وقت جو ایمان لائے یا نیک عمل کرے اسے نہ اس کا عمل نفع دے گا نہ اس کا ایمان ۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر و شرک پر مرنے والے کو بھی ندامت و توبہ کوئی فائدہ نہ دے گی نہ ہی اس فدیہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا چاہے زمین بھر کر سونا دینا چاہئے حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یہ آیت اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی اپنے بندیکی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے جب تک پردہ نہ پڑ جائے پوچھا گیا پردہ پڑنے سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا شرک کی حالت میں جان نکل جانا۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالٰی نے سخت درد ناک المناک ہمیشہ رہنے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں۔