إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿40﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا کسی کی ذرا بھی حق تلفی نہیں کرتا اور اگر نیکی (کی) ہو گی تو اس کو دو چند کردے گا اور اپنے ہاں سے اجر عظیم بخشے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
بے مثال خریدار؟ 
باری تعالٰی رب العالمین فرماتا ہے کہ میں کسی پر ظلم نہیں کرتا، کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا، بلکہ بڑھا چڑھا کر قیامت کے روز اس کا اجر و ثواب عطا فرماؤں گا جیسے اور آیت میں ہے ( آیت ونضع الموازین القسط الخ،) ہم عدل کی ترازو رکھیں گے۔ اور فرمایا کہ حضرت لقمان نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا تھا (آیت یا بنی انھا ان تک مثقال حبتہ من خرد دل الخ، ) اے بیٹے اگر کوئی چیز رائی کے دانے برابر ہو گو وہ کسی پتھر میں یا آسمانوں میں ہو یا زمین کے اندر ہو اللہ سے اسے لا حاضر کرے گا، بیشک اللہ تعالٰی باریک بین خریدار ہے۔ اور جگہ فرمایا (آیت یومئذ یصدر الناس الخ،) اس دن لوگ اپنے مختلف احوال پر لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا ، بخاری و مسلم کی شفاعت کے ذکر والی مطول حدیث میں ہے کہ پھر اللہ فرمائے گا لوٹ کر جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان دیکھو اسے جہنم سے نکال لاؤ۔ پس بہت سی مخلوق جہنم سے آزاد ہو گی حضرت ابو سعید یہ حدیث بیان فرما کر فرماتے اگر تم چاہو تو آیت قرآنی کے اس جملے کو پڑ ھ لو(آیت ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ الخ،) ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہا کا فرمان مروی ہے کہ قیامت کے دن کسی اللہ کے بندے یا بندی کو لایا جائے گا اور ایک پکارنے والا سب اہل محشر کو با آواز بلند سنا کر کہے گا یہ فلاں کا بیٹا یا بیٹی ہے اس کا نام یہ ہے جس کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ باقی ہو یا آئے اور لے جائے اس وقت یہ حالت ہو گی کہ عورت چاہے گی کہ اس کا کوئی حق اس کے باپ پر یا ماں پر یا بھائی پر یا شوہر پر ہو تو دوڑ کر آئے اور لے رشتے ناتے کٹ جائیں گے کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا اللہ تعالٰی اپنا جو حق چاہے معاف فرما دے گا لیکن لوگوں کے حقوق میں سے کوئی حق معاف نہ فرمائے گا اسی طرح جب کوئی حقدار آئے گا تو فریق ثانی سے کہا جائے گا کہ ان کے حق ادا کر یہ کہے گا دنیا تو ختم ہو چکی آج میرے ہاتھ میں کیا ہے جو میں دوں ؟ پس اس کے نیک اعمال لئے جائیں گے اور حقداروں کو دئیے جائیں گے اور ہر ایک کا حق اسی طرح ادا کیا جائے گا اب یہ شخص اگر اللہ کا دوست ہے تو اس کے پاس ایک رائی کے دانے برابر نیکی بچ رہے گی جسے بڑھا چڑھا کر صرف اسی کی بنا پر اللہ تعالٰی اسے جنت میں لے جائے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور اگر وہ بندہ اللہ کا دوست نہیں ہے بلکہ بد بخت اور سرکش ہے تو یہ حال ہو گا کہ فرشتہ کہے گا کہ باری تعالٰی اس کی سب نیکیاں ختم ہوگئیں اور ابھی حقدار باقی رہ گئے حکم ہو گا کہ ان کی برائیاں لے کر اس پر لاد دو پھر اسے جہنم واصل کرو اعاذنا اللہ منہا۔ اس موقوف اثر کے بعض شواہد مرفوع احادیث میں بھی موجود ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہا کا فرمان ہے کہ ( آیت "من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ") اعراب کے بارے میں اتری ہے اس پر ان سے سوال ہوا کہ پھر مہاجرین کے بارے میں کیا ہے آپ نے فرمایا اس سے بہت ہی اچھی( آیت"ان اللہ لا یظلم الخ") حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مشرک کے بھی عذابوں میں اس کے باعث کمی کر دی جاتی ہے ہاں جہنم سے نکلے گا تو نہیں، چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے چچا ابو طالب کی پشت پناہ بنے ہوئے تھے آپ کو لوگوں کی ایذاؤں سے بچاتے رہتے تھے آپ کی طرف سے ان سے لڑتے تھے تو کیا انہیں کچھ نفع بھی پہنچے گا آپ نے فرمایا ہاں وہ بہت تھوڑی سی آگ میں ہے اور اگر میرا یہ تعلق نہ ہوتا تو جہنم کے نیچے کے طبقے میں ہوتا۔ لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ یہ فائدہ صرف ابو طالب کے لئے ہی ہو یعنی اور کفار اس حکم میں نہ ہوں اس لئے کہ مسند طیالسی کی حدیث میں ہے اللہ تعالٰی مومن کی کسی نیکی پر ظلم نہیں کرتا دنیا میں روزی وغیرہ کی صورت میں اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی اجر عظیم سے مراد اس آیت میں جنت ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم لطف و رحم سے اپنی رضامندی عطا فرمائے اور جنت نصیب کرے۔ آمین مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے حضرت ابو عثمان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے خبر ملی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا ہے اللہ تعالٰی اپنے مومن بندے کو ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکی کا ثواب دے گا مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے کہا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مل کر ان سے خود پوچھ آؤں چنانچہ میں نے سامان سفر درست کیا اور اس روایت کی چھان بین کے لئے روانہ ہوا معلوم ہوا کہ وہ تو حج کو گئے ہیں تو میں بھی حج کی نیت سے وہاں پہنچا ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں نے سنا آپ نے ایسی حدیث بیان کی ہے ؟ کیا یہ سچ ہے؟ آپ نے فرمایا کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے ؟ تم نے قرآن میں نہیں پڑھا؟ کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے جو شخص اللہ کو اچھا قرض دے اللہ اسے بہت بہت بڑھا کر عنایت فرماتا ہے اور دوسری آیت میں ساری دنیا کو کم کہا گیا ہے اللہ تعالٰی کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کو بڑھا کر اس کے بدلے دو لاکھ ملیں گی۔ یہ حدیث اور طریقوں سے بھی مروی ہے، پھر قیامت کے دن کی سختی اور ہولناکی بیان فرما رہا ہے کہ اس دن انبیاء علیہ السلام کو بطور گواہ کے پیش کیا جائے گا جیسے اور آیت میں ہے(آیت واشرقت الارض بنور ربھا و وضع الکتاب وجی بالنبیین والشھداء ) زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال دئیے جائیں گے اور نبیوں اور گواہوں کو لاکھڑا کریں گے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ حضرت عبداللہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا آپ پر تو اترا ہی ہے فرمایا ہاں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ دوسرے سے سنوں پس میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کی پڑھتے پڑھتے جب میں نے اس آیت فکیف کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا بس کرو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت محمد بن فضالہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنی ظفر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور اس چٹان پر بیٹھ گئے جواب تک انکے محلے میں ہے آپ کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تھے آپ نے ایک قاری سے فرمایا قرآن پڑھو پڑھتے پڑھتے جب اس آیت فکیف تک پہنچا تو آپ اس قدر روئے کہ دونوں رخسار اور داڑھی تر ہو گئی اور عرض کرنے لگے یا رب جو موجود ہیں ان پر تو خیر میری گواہی ہو گی لیکن جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہی نہیں ان کی بابت کیسے؟ ( ابن ابی حاتم) ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں ان پر گواہ ہوں جب تک کہ ان میں ہوں پس جب تو مجھے فوت کرے گا تب تو تو ہی ان پر نگہبان ہے، ابو عبداللہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرہ میں باب باندھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی امت پر شہادت کے بارے میں کیا آیا ہے؟ اس میں حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول لائے ہیں کہ ہر دن صبح شام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کی امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں مع ناموں کے پاس آپس قیامت کے دن ان سب پر گواہی دیں گے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی لیکن اولاً تو یہ حضرت سعید کا خود کا قول ہے، دوسرے یہ کہ اس کی سند میں انقطاع ہے، اس میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام ہی نہیں تیسرے یہ حدیث مرضوع کے بیان ہی نہیں کرتے ہاں امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اسے قبول کرتے ہیں وہ اس کے لانے کے بعد فرماتے ہیں کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالٰی کے سامنے ہرچیز اور ہر جمعرات کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں پس وہ انبیاء پر اور ماں باپ پر ہر جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ممکن ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر جمعہ کو بھی پیش ہوتے ہوں اور ہر دن بھی (ٹھیک یہی ہے کہ یہ بات صحت کے ساتھ ثابت نہیں واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے کہ اس دن کافر کہے گا کاش میں کسی زمین میں سما جاؤں پھر زمین برابر ہو جائے گی۔ کافر نا قابل برداشت ہولناکیوں رسوائیوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرا اٹھے گا، جیسے اور آیت میں ہے(آیت یوم ینظر المرء) الخ جس دن انسان اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال اپنی آنکھوں دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کاش کہ میں مٹی ہو گیا ہوتا۔ پھر فرمایا یہ ان تمام بد افعالیوں کا اس دن اقرار کریں گے جو انہوں نے کی تھیں اور ایک چیز بھی پوشیدہ نہ رکھیں گے ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہا حضرت ایک جگہ تو قرآن میں ہے کہ مشرکین قیامت کے دن کہیں گے(آیت واللہ ربنا ما کنا مشرکین اللہ ) کی قسم رب کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا اور دوسری جگہ ہے کہ(آیت لایکتمون اللہ حدیثا) اللہ سے بات بھی نہ چھپائیں گے پھر ان دونوں آیتوں کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا اس کا اور وقت ہے اس کا وقت اور ہے اور جب موحدوں کو جنت میں جاتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے آؤ تم بھی اپنے شرک کا انکار کرو کیا عجب کام چل جائے۔ پھر ان کے منہ پر مہریں لگ جائیں گی اور ہاتھ پاؤں بولنے لگیں گے اب اللہ تعالٰی سے ایک بات بھی نہ چھپائیں گے (ابن جریر) مسند عبدالزاق میں ہے کہ اس شخص نے آن کر کہا تھا بہت سی چیزیں مجھ پر قرآن میں مختلف نظر آ رہا ہے، آپ نے فرمایا کیا مطلب تجھے کیا قرآن میں شک ہے؟ اس نے کہا شک تو نہیں ہاں میری سمجھ میں اختلاف نظر آ رہا ہے، آپ نے فرمایا جہاں جہاں اختلاف تجھے نظر آیا ہو ان مقامات کو پیش کر تو اس نے یہ دو آیتیں کی تطبیق سمجھا دی۔ ایک اور روایت میں سائل کا نام بھی آیا ہے کہ وہ حضرت نافع بن ارزق تھے یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ شاید تم کسی ایسی مجلس سے آ رہے ہو جہاں ان کا تذکرہ ہو رہا ہو گا یا تم نے کیا ہو گا کہ میں جاتا ہوں اور ابن عباس سے دریافت کرتا ہوں اگر میرا یہ گمان صحیح ہے تو تمہیں لازم ہے کہ جواب سن کر انہیں بھی جا کر سنادو پھر یہی جواب دیا۔