أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا ﴿51﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے راستے پر ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
منہ پر تعریف و توصیف کی ممانعت
یہودونصاری کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالٰی کی اولاد اور اس کہ چہیتے ہیں اور کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے یا نصرانی ان کے اس قول کی تردید میں یہ( آیت الم تر الخ، ) نازل ہوئی اور یہ قول حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کے خیال کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بےگناہ ہے، یہ بھی مروی ہے کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جو بچے فوت ہوگئے ہیں وہ ہمارے لئے قربت الہ کا ذریعہ ہیں ہمارے سفارشی ہیں اور ہمیں وہ بچالیں گے پس یہ آیت اتری۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ یہودیوں کا اپنے بچوں کا آگے کرنے کا واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اللہ تعالٰی کسی گنہگار کو بےگناہ کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا، یہ کہتے تھے کہ جیسے ہمارے بچے بےخطا ہیں ایسے ہیں ہم بھی بےگناہ ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے کے رد میں اتری ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ، بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کی مدح و ستائش کرتے ہوئے سن کر فرمایا افسوس تو نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی پھر فرمایا اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں میری رائے یہ ہے اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ جو کہے میں مومن ہوں وہ کافر ہے اور جو کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جو کہے میں جنتی ہوں جہنمی ہے، ابن مردویہ میں آپ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے لگے اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے بیٹھ جائے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے اور بہت کم جمعے ایسے ہوں گے جن میں آپ نے یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ عطافرماتا ہے اور یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اسے اس میں برکت دی جائے گی تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدح و ستائش سے پرہیز کرو اس لئے کہ یہ دوسرے پر چھری پھیرنا ہے یہ پچھلا جملہ ان سے ابن ماجہ میں بھی مروی ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ انسان کے پاس ایک صبح کو اپنے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا ( اس کی وجہ یہ ہوتی ہے) کہ وہ صبح کسی سے اپنا کام نکالنے کے لئے ملا، اس کی تعریف شروع کر دی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے لگا آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں حلانکہ نہ وہ اس کے نقصان کا مالک ہے نہ نفع اور بسا ممکن ہے کہ ان تعریفی کلمات اور اس کا تفصیلی بیان ( آیت فلا تزکو انفسکم ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالٰی پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہی ہے وہ جسے چاہے پاک کر دے کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے، پھر فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے کے وزن کے برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے گا، فتیل کے معنی ہیں کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا دھاگہ اور مروی ہے کہ وہ دھاگہ جسے کوئی اپنی انگلیوں سے بٹ لے، پھر فرماتا ہے ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے محبوب بننے کے دعویدار ہیں؟ اور کیسی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہوگا کس طرح اپنے بروں کے نیک اعمال پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے کو کچھ نفع نہیں دے سکتا جیسے ارشاد ہے(آیت تلک امتہ قد خلت الخ، ) یہ ایک گروہ ہے جو گزر چکا ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ پھر فرماتا ہے ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے لئے کافی ہے "جبت"کے معنی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ سے جادو اور طاغوت کے معین شیطان کے مروی ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبت جبش کا لفظ ہے اس کے معنی شیطان کے ہیں، شرک بت اور کاہن کے معنی بھی بتائے گئے ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حی بن اخطب ہے، بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف ہے، ایک حدیث میں ہے فال اور پرندوں کو ڈانٹنا یعنی ان کے نام یا ان کے اڑنے یا بولنے یا ان کے نام سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے کرنا اور جبت ہے، حسن کہتے ہیں جبت شیطان کی غنغناہٹ ہے، طلاغوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں جن کے پاس شیطان آتے تھے مجاہد فرماتے ہیں انسانی صورت کے یہ شیاطین ہیں جن کے پاس لوگ اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں اور انہیں حاکم مانتے ہیں حضرت امام مالک فرماتے ہیں اس سے مراد ہرچیز ہے جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جائے پھر فرمایا کہ ان کی جہالت بےدینی اور خود اپنی کتاب کے ساتھ کفر کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے پاس آئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتاؤ تو تم بہتر ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہوں نے کہا تم کیا ہو؟ اور وہ کیا ہیں؟ تو اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں تیار اونٹنیاں ذبح کر کے دوسروں کو کھلاتے ہیں لسی پلاتے ہیں غلاموں کو آزاد کرتے ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صنبور ہیں ہمارے رشتے ناتے تڑوا دئیے۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیا جو قبیلہ غفار میں سے ہیں اب بتاؤ ہم اچھے یا وہ؟ تو ان دونوں نے کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے راستے پر ہو اس پر یہ آیت اتری دوسری روایت میں ہے کہ انہی کے بارے میں(آیت ان شانئک ھو الابتر) اتری ہے، بنو وائیل اور بنو نضیر کے چند سردار جب عرب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آگ لگا رہے تھے اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے اس قوت جب یہ قریش کے پاس آئے تو قریشیوں نے انہیں عالم و درویش جان کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد کا ؟ تو ان لوگوں نے کہا تم اچھے دین والے اور ان سے زیادہ صحیح راستے پر ہو اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ یہ لعنتی گروہ ہے اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں اس لئے کہ صرف کفار کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے بطور چاپلوسی اور خوشامد کے یہ کلمات اپنی معلومات کے خلاف کہہ رہے ہیں لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے چنانچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے کر سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے، نامراد و ناکام پلٹے، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے ساتھ لوٹنا پڑا۔ اللہ تعالٰی نے مومنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے (کافروں کو) اوندھے منہ گرا دیا، فالحمد اللہ الکبیر المتعال