وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا ﴿64﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھتے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول (خدا) بھی ان کے لیے بخشش طلب کرتے تو خدا کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے ‏
تفسیر ابن كثیر
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ضامن نجات ہے
مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں باذن اللہ سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالٰی کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے، جیسے اور آیت میں ہے(آیت اذتحسونھم باذنہ) یہاں بھی اذن سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا۔ پھر اللہ تعالٰی عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالٰی سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھی 
باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ
فطاب من طیبھن القاع والا کم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم
جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی ، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے، پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے ( یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جاء و ک کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے واللہ اعلم۔ مترجم) پھر اللہ تعالٰی اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ بنا دے۔ غرض جو بھی ظاہر و باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصل اصول سمجھے وہی مومن ہے۔ پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کرلیا کریں اپنے دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں بے اثر کرنے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہو سکتا ہے اور فرمایا زبیر تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہو جائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ ( آیت فلا وربک الخ) اسی بارے میں نازل ہوئی ہے، مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ بدری تھے اور روایت میں ہے دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت حاطب بن ابو بلتہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا۔ دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد میں آئے آپ نے فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیج دیجئے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کر دیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آ گئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی، آپ نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالٰی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بری کر دیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہو جائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری(آیت ولوانا کتبنا) جو آگے آتی ہے ( ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم۔ دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے؟ کہا یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا ( تفسیر حافظ ابو اسحاق)