يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿94﴾
‏ [جالندھری]‏ مومنو! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کر لیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل ناقابل معافی جرم ہے
ترمذوی وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ بنو سلیم کا ایک شخص بکریاں چراتا ہوا صحابہ کی ایک جمات کے پاس سے گذرا اور سلام کیا تو صحابہ آپس میں کہنے لگے یہ مسلمان تو ہے نہیں صرف اپنی جان بچانے کے لئے سلام کرتا ہے چنانچہ اسے قتل کر دیا اور بکریاں لے کر چلے آئے، اس پر یہ آیت اتری، یہ حدیث تو صحیح ہے لیکن بعض نے اس میں علتیں نکالی ہیں کہ سماک راوی کے سوائے اس طریقے کا اور کوئی مخرج ہی اس کا نہیں، اور یہ کہ عکرمہ سے اس کے روایت کرنے کے بھی قائل ہے، اور یہ کہ اس آیت کے شان نزول میں اور واقعات بھی مروی ہیں، بعض کہتے ہیں محکم بن جثامہ کے بارے میں اتری ہے بعض کہتے ہیں اسامہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں، لیکن میرے خیال میں یہ سب ناقابل تسلیم ہے سماک سے اسے بہت سے ائمہ کبار نے روایت کیا ہے، عکرمہ سے صحیح دلیل لی گئی ہے، یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت ابن عباس سے صحیح بخاری میں مروی ہے، سعید بن منصور میں یہی مروی ہے، ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص کو اس کے والد اور اس کی قوم نے اپنے اسلام کی خبر پہنچانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، راستے میں اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے ایک لشکر سے رات کے وقت ملاقات ہوئی اس نے ان سے کہا کہ میں مسلمان ہوں لیکن انہیں یقین نہ آیا اور اسے دشمن سمجھ کر قتل کر ڈالا ان کے والد کو جب یہ علم ہوا تو یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا چنانچہ آپ نے انہیں ایک ہزار دینار دئیے اور دیت دی اور انہیں عزت کے ساتھ رخصت کیا، اس پر یہ آیت اتری، محکم بن جثامہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک چھوٹا سا لشکر اخسم کی طرف بھیجا جب یہ لشکر بطل اخسم میں پہنچا تو عامر بن اضبط اشجعی اپنی سواری پر سوار مع اسباب کے آرہے تھے پاس پہنچ کر سلام کیا سب تو رک گئے لیکن محکم بن جثامہ نے آپس کی پرانی عداوت کی بنا پر اس پر جھپٹ کر حملہ کر دیا، انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا اسباب قبضہ میں کر لیا پھر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ یہ واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت اتری۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عامر نے اسلامی طریقہ کے مطابق سلام کیا تھا لیکن جاہلیت کی پہلی عداوت کے باعث محکم نے اسے تیر مار کر مار ڈالا یہ خبر پا کر عامر کے لوگوں سے محکم بن جثامہ نے مصالحانہ گفتگو کی لیکن عینیہ نے کہا نہیں نہیں اللہ کی قسم جب تک اس کی عورتوں پر بھی وہی مصیبت نہ آئے جو میری عورتوں پر آئی۔ چنانچہ محکم اپنی دونوں چادریں اوڑھے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اس اُمید پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے استغفار کریں لیکن آپ نے فرمایا اللہ تجھے معاف نہ کرے یہ یہاں سے سخت نادم شرمسار روتے ہوئے اُٹھے اپنی چادروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے سات روز بھی نہ گذرنے پائے تھے انتقال کر گئے۔ لوگوں نے انہیں دفن کیا لیکن زمین نے ان کی نعش اگل دی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی سے نہایت بدتر لوگوں کو زمین سنبھال لیتی ہے لیکن اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ تمہیں مسلمان کی حرمت دکھائے چنانچہ ان کے لاشے کو پہاڑ پر ڈال دیا گیا اور اُوپر سے پتھر رکھ دئے گئے اور یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقداد سے فرمایا جبکہ انہوں نے قوم کفار کے ساتھ جو مسلمان مخفی ایمان والا تھا اسے قتل کر دیا تھا باوجودیکہ اس نے اپنے سلام کا اظہار کر دیا تھا کہ تم بھی مکہ میں اسی طرح ایمان چھپائے ہوئے تھے۔ بزار میں یہ واقعہ پورا اس طرح مرودی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا جس میں حضرت مقداد بھی تھے جب دشمنوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سب تو اِدھر اُدھر ہوگئے ہیں ایک شخص مالدار وہاں رہ گیا ہے اس نے انہیں دیکھتے ہی اشھد ان لا اللہ الا اللّٰہ کہا۔ تاہم انہوں نے حملہ کر دیا اور اسے قتل کر ڈالا، ایک شخص جس نے یہ واقعہ دیکھا تھا وہ سخت برہم ہوا اور کہنے لگا مقداد نے اسے قتل کر ڈالا جس نے کلمہ پڑھا تھا؟ میں اس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کروں گا، جب یہ لشکر واپس پہنچا تو اس شخص نے یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ نے حضرت مقداد کو بلوایا اور فرمایا تم نے یہ کیا کیا؟ کل قیات کے دن تم لا الٰہ الا اللّٰہ کے سامنے کیا جواب دو گے؟ پس اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری اور آپ نے فرمایا کہ اے مقداد وہ شخص مسلمان تھا جس طرح تو مکہ میں اپنے ایمان کو مخفی رکھتا تھا پھر تو نے اس کے اسلام ظاہر کرنے کے باوجود اسے مارا؟ اس کے بعد اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جس غنیمت کے لالچ میں تم غفلت برتتے ہو اور سلام کرنے والوں کے ایمان میں شک وشبہ کرکے انہیں قتل کر ڈالتے ہو یاد رکھو وہ غنیمت اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس بہت سے غنیمتیں ہیں جو وہ تمہیں حلال ذرائع سے دے گا اور وہ تمہارے لئے اس مال سے بہت بہتر ہوں گے۔ تم بھی اپنا وہ وقت یاد کرو کہ تم بھی ایسے ہی لاچار تھے اپنے ضعف اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ایمان ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے قوم میں چھپے لگے پھرتے تھے آج اللہ خالق کل نے تم پر احسان کیا تمہیں قوت دی اور تم کھلے بندوں اپنے اسلام کا اظہار کر رہے ہو، تو جو بے اسباب اب تک دشمنوں کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایمان کا اعلان کھلے طور پر نہیں کر سکے جب وہ اپنا ایمان ظاہر کریں تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے اور آیت میں ہے (آیت واذ کرو اذا نتم قلیل الخ، ) یاد کرو جبکہ تم کم تھے کمزور تھے۔ الغرض ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ بکری کا چرواہا اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا اسی طرح اس سے پہلے جبکہ بےسرو سامانی اور قلت کی حالت میں تم مشرکوں کے درمیان تھے ایمان چھپائے پھرتے تھے، یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم بھی پہلے اسلام والے نہ تھے اللہ نے تم پر احسان کیا اور تمہیں اسلام نصیب فرمایا، حضرت اسامہ نے قسم کھائی تھی کہ اس کے بعد بھی کسی لا الہ الا اللّٰہ کہنے والے کو قتل نہ کروں گا کیونکہ انہیں بھی اس بارے میں پوری سرزنش ہوئی تھی۔ پھر تاکیداً دوبارہ فرمایا کہ بخوبی تحقیق کر لیا کرو، پھر دھمکی دی جاتی ہے کہ اللہ جل شانہ کو اپنے اعمال سے غافل نہ سمجھو، جو تم کر رہے، وہ سب کی پوری طرح خبر رکھتا ہے۔