وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا ﴿131﴾ [جالندھری] اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان کو بھی اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم کو بھی ہم نے حکم تاکیدی کیا ہے کہ خدا سے ڈرتے رہو اور اگر کفر کرو گے تو (سمجھ رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور خدا بےپروا اور سزا وار حمد وثنا ہے
تفسیر ابن كثیر
مانگو تو صرف اللہ اعلیٰ و اکبر سے مانگو
اللہ تعالٰی مطلع کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم وہی ہے فرماتا ہے جو احکام تمہیں دیئے جاتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو اس کی وحدانیت کو مانو اس کی عبادت کرو اور کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی احکام تم سے پہلے کے اہل کتاب کو بھی دئے گئے تھے اور اگر تم کفر کرو (تو اللہ کا کیا بگاڑو گے؟ ) وہ تو زمین آسمان کا تنہا مالک ہے، جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کفر کرنے لگو تو بھی اللہ تعالٰی بےپرواہ اور لائق ستائش ہے اور جگہ فرمایا(آیت فکفروا وتولوا واستغنی اللہ واللہ غنی حمید) انہوں نے کفر کیا اور منہ موڑ لیا اللہ نے ان سے بےنیازی کی اور اللہ بہت ہی بےنیاز اور تعریف کیا گیا ہے۔ اپنے تمام بندوں سے غنی اور اپنے تمام کاموں میں حمد کیا گیا ہے۔ آسمان و زمین کی ہرچیز کا وہ مالک ہے اور ہر شخص کے تمام افعال پر وہ گواہ ہے اور ہرچیز کا وہ عالم اور شاہد ہے۔ وہ قادر ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو تو وہ تمہیں برباد کر دے اور غیروں کو آباد کر دے، جیسا کہ دوسری آیت میں ہے ( وان تتولوایستبدل قوما غیر کم ثم لایکونوا امثالکم ) اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تعالٰی تمہیں بدل کر تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے بعض سلف سے منقول ہے کہ اس آیت پر غور کرو اور سوچو کہ گنہگار بندے اللہ اکبر و اعلیٰ کے نزدیک کس قدر ذلیل اور فرومایہ ہیں؟ اور آیت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ مقتدر پر یہ کام کچھ مشکل نہیں۔ پھر فرماتا ہے اے وہ شخص جس کا پورا قصد اور جس کی تمام تر کوشش صرف دنیا کے لئے ہے تو جان لے کہ دونوں جہاں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اللہ کے قبضے میں ہیں، تو جب اس سے دونوں ہی طلب کرے گا تو وہ تجھے دے گا اور تجھے بےپرواہ کر دے گا اور آسودہ بنا دے گا اور جگہ فرمایا بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا دے ان کا کوئی حصہ آخرت میں نہیں اور ایسے بھی ہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی بھلائیاں دے اور آخرت میں بھی بھلائیاں عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے ہمیں نجات عطا فرما۔ یہ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا پورا حصہ ملے گا اور جگہ ہے جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھے ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کریں گے اور آیت میں ہے (آیت من کان یرید العاجلتہ الخ) جو شخص دنیا طلب ہو تو ہم جسے چاہیں جتنا چاہیں دنیا میں دے دیں امام ابن جریر نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جن منافقوں نے دنیا کی جستجو میں ایمان قبول کیا تھا انہیں دنیا چاہے مل گئی یعنی مسلمان سے مال غنیمت میں حصہ مل گیا، لیکن آخرت میں ان کے لئے الہ العلمین کے پاس جو تیاری ہے وہ انہیں وہاں ملے گی یعنی جہنم کی آگ اور وہاں کے گوناگوں عذاب تو امام صاحب مذکور کے نزدیک یہ آیت مثل( آیت من کان یریدالحیوۃ الدنیا وزینتھا الخ، ) کے ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کے معنی تو بظاہر یہی ہیں لیکن پہلی آیت کو بھی اسی معنی میں لینا ذرا غور طلب امر ہے کیونکہ اس آیت کے الفاظ تو صاف بتا رہے ہیں کہ دنیا اور آخرت کی بھلائی دینا الہ العالمین کے ہاتھ ہے تو ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ہمت ایک ہی چیز کی جستجو میں خرچ نہ کر دے بلکہ دونوں چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرے جو تمہیں دنیا دیتا ہے وہی آخرت کا مالک بھی ہے اور آخرت دے سکتا ہے یہ بڑی پست ہمتی ہو گی کہ تم اپنی آنکھیں بند کر لو اور بہت دینے والے سے تھوڑا مانگو ، نہیں نہیں بلکہ تم دنیا اور آخرت کے بڑے بڑے کاموں اور بہترین مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو، اپنا نصب العین صرف دنیا کو نہ بنا لو، عالی ہمتی اور بلند پردازی سے وسعت نظری کو کام میں لا کر عیش جاودانی کی کوشش وسعی کرو یاد رکھو دونوں جہان کا مالک وہی ہے ہر ہر نفع اسی کے ہاتھ میں ہے کوئی نہیں جسے اس کے ساتھ شراکت ہو یا اس کے کاموں میں دخل ہو سعادت و شقاوت اس نے تقسیم کی ہے خزانوں کی کنجیاں اس نے اپنی مٹھی میں رکھ لی ہیں، وہ ہر ایک مستحق کو جانتا ہے اور جس کا وہ مستحق ہوتا ہے اسے وہی پہچانتا ہے، بھلا تم غور تو کرو کہ تمہیں دیکھنے سننے کی طاقت دینے والے کا اپنا دیکھنا سننا کیسا ہو گا۔