إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا ﴿137﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ان کو خدا نہ تو بخشے گا اور نہ سیدھا راستہ دکھائے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
صحبت بد سے بچو
ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہو جائے پھر وہ مومن ہو کر کافر بن جائے پھر اپنے کفر پر جم جائے اور اسی حالت میں مر جائے تو نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان اس کا چھٹکارا، نہ فلاح، نہ اللہ اسے بخشے، نہ راہ راست پر لائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی تلاوت فرما کر فرماتے تھے مرتد سے تین بار کہا جائے کہ توبہ کر لے۔ پھر فرمایا یہ منافقوں کا حال ہے کہ آخرش ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ مومنوں کو چھوڑ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں، ادھر بظاہر مومنوں سے ملے جلے رہتے ہیں اور کافروں میں بیٹھ کر ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں دراصل ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، پس اللہ تعالٰی ان کے مقصود اصلی کو ان کے سامنے پیش کر کے اس میں ان کی ناکامی کو بیان فرماتا ہے کہ تم چاہتے ہو ان کے پاس تمہاری عزت ہو مگر یہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور تم غلطی کر رہے ہو بگوش ہوش سنو عزتوں کا مالک تو اللہ تعالٰی وحدہ لا شریک لہ ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور آیت میں ہے(آیت من کان یریدالعزۃ الخ اور فرمایا واللہ العزۃ الخ، ) یعنی عزت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کا حق ہے، لیکن منافق بےسمجھ لوگ ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو اللہ کے نیک بندوں کے اعمال اختیار کرو اس کی عبادت کی طرف جھک جاؤ اور اس جناب باری سے عزت کے خواہاں بنو، دنیا اور آخرت میں وہ تمہیں وقار بنا دے گا، مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص فخر و غرور کے طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے کے لئے اپنا نسب اپنے کفار باپ دادا سے جوڑے اور نو تک پہنچ جائے وہ بھی ان کے ساتھ دسواں جہنمی ہو گا۔ پھر فرمان ہے جب میں تمہیں منع کر چکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس میں نہ بیٹھو، پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے رہو گے تو یاد رکھو میرے ہاں تم بھی ان کے شریک کار سمجھے جاؤ گے۔ ان کے گناہ میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جس دستر خوان پر شراب نوشی ہو رہی ہے اس پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنا چاہئے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس آیت میں جس ممانعت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورہ انعام کی جو مکیہ ہے یہ( آیت واذا رایت الذین یخوضون فی ایاتنا فاعرض عنھم الخ،) جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں میں غوطے لگانے بیٹھ جاتے ہیں تو تو ان سے منہ موڑ لے۔ حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں اس آیت کا یہ حکم (آیت انکم اذا مثلھم ) اللہ تعالٰی کے اس فرمان (آیت وما علی الذین یقون من حسابھم من شئی ولکن ذکری لعلھم یتقون) سے منسوخ ہو گیا ہے یعنی متقیوں پر ان کے احسان کا کوئی بوجھ نہیں لکین نصیحت ہے کیا عجب کہ وہ بچ جائیں۔ پھر فرمان باری ہے اللہ تعالٰی تمام منافقوں کو اور سارے کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔ یعنی جس طرح یہ منافق ان کافروں کے کفر میں یہاں شریک ہیں قیامت کے دن جہنم میں بھی اور ہمیشہ رہنے والے وہاں کے سخت تر دل ہلا دینے والے عذابوں کے سہنے میں بھی ان کے شریک حال رہیں گے۔ وہاں کی سزاؤں میں وہاں کی قید و بند میں طوق و زنجیر میں گرم پانی کے کڑوے گھونٹ اتارنے میں اور پیپ کے لہو کے زہر مار کرنے میں بھی ان کیساتھ ہوں گے اور دائمی سزا کا اعلان سب کو ساتھ سنا دیا جائے گا۔