وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا ﴿156﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ان کے کفر کے سبب اور مریم پر بہتان عظیم باندھنے کے سبب۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
تیسرا قول یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی موت سے پہلے ایمان لائے گا۔ عکرمہ یہی فرماتے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان سب اقوال میں زیادہ تر صحیح قول پہلا ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے قیامت کے قریب اتریں گے، اس وقت کوئی اہل کتاب آپ پر ایمان لائے بغیر نہ رہے گا۔ فی الواقع امام صاحب کا یہ فیصلہ حق بجانب ہے۔ اس لئے کہ یہاں کی آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اصل مقصود یہودیوں کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا ہے کہ ہم نے جناب مسیح کو قتل کیا اور سولی دی اور اسی طرح جن جاہل عیسائیوں نے یہ بھی کہا ہے ان کے قول کو بھی باطل کرنا ہے، روح اللہ نہ مقتول ہیں، نہ مصلوب ۔ تو اللہ تعالٰی خبر دیتا ہے کہ فی الواقع نفس الامر میں نہ تو روح اللہ مقتول ہوئے، نہ مصلوب ہوئے بلکہ ان کے لئے شبہ ڈال دیا گیا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ جیسے ایک شخص کو قتل کیا لیکن خود انہیں اس حقیقت کا علم نہ ہو سکا۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو تو اپنے پاس چڑھا لیا۔ وہ زندہ ہیں، اب تک باقی ہیں، قیامت کے قریب اتریں گے۔ جیسے صحیح متواتر احادیث میں ہے مسیح ہر گمراہ کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیروں کو قتل کریں گے، جزیہ قبول نہیں کریں گے، اعلان کر دیں گے کہ یا تو اسلام کو قبول کرو یا تلوار سے مقابلہ کرو۔ پس اس آیت میں خبر دیتا ہے کہ اس وقت تمام اہل کتاب آپ کے ہاتھ پر ایمان قبول کریں گے اور ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو اسلام کو مانے بغیر رہ جائے یا رہ سکے۔ پس جسے یہ گمراہ یہود اور یہ جاہل نصرانی مرا ہوا جانتے ہیں اور سولی پر چڑھایا ہوا مانتے ہیں، یہ ان کی حقیقی موت سے پہلے ہی ان پر ایمان لائیں گے اور جو کام انہوں نے ان کی موجودگی میں کئے ہیں اور کریں گے یہ ان پر قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دیں گے یعنی آسمان پر اٹھائے جانے کے قبل زندگی کے مشاہدہ کئے ہوئے کام اور دوبارہ کی آخری زندگی جو زمین پر گذاریں گے، اس میں ان کے سامنے جتنے کام انہوں نے کئے وہ سب آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے اور انہیں اللہ کے سامنے انہیں پیش کریں گے۔ ہاں اس کی تفسیر میں جو دو قول اور بیان ہوئے ہیں وہ بھی واقعہ کے اعتبار سے بالکل صحیح اور درست ہیں۔ موت کا فرشتہ آ جانے کے بعد احوال آخرت ، سچ جھوٹ کا معائنہ ہو جاتا ہے ، اس وقت ہر شخص سچائی کو سچ کہنے اور سمجھنے لگتا ہے لیکن وہ ایمان اللہ کے نزدیک معتبر نہیں۔ اسی سورت کے شروع میں ہے آیت (ولیست التوبتہ للذین یعملون السیات حتی اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الان ) الخ، اور جگہ فرمان ہے آیت (فلما راو باسنا قالوا امنا باللہ وحدہ) الخ، یعنی جو لوگ موت کے آ جانے تک برائیوں میں مشغول رہے ان کی توبہ قبول نہیں اور جو لوگ عذاب رب دیکھ کر ایمان لائیں، انہیں بھی ان کا ایمان نفع نہ دے گا۔ پس ان دونوں آیتوں کو سامنے رکھ کر ہم کہتے ہیں کہ پچھلے دو اقوال جن کی امام ابن جریر نے تردید کی ہے وہ ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ امام صاحب فرماتے ہیں اگر پچھلے دونوں قولوں کو اس آیت کی تفسیر میں صحیح مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ کسی یہودی یا نصرانی کے اقرباء اس کے وارث نہ ہوں، اس لئے کہ وہ تو حضرت عیسیٰ پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر مرا اور اس کے وارث یہود و نصاریٰ ہیں، مسلمان کا وارث کافر نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ اس وقت ہے جب ایمان ایسے وقت لائے کہ اللہ کے نزدیک معتبر ہو، نہ ایسے وقت ایمان لانا جو بالکل بےسود ہے۔ ابن عباس کے قول پر گہری نظر ڈالئے کہ دیوار سے گرتے ہوئے، درندے کے جبڑوں میں ، تلوار کے چلتے ہوئے وہ ایمان لاتا ہے تو ایسی حالت کا ایمان مطلق نفع نہیں دے سکتا۔ جیسے قرآن کی مندرجہ بالا دونوں آیتیں ظاہر کر رہی ہیں واللہ اعلم۔ میرے خیال سے تو یہ بات بہت صاف ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے پچھلے دونوں قول بھی معتبر مان لینے سے کوئی اشکال پیش نہیں آتی۔ اپنی جگہ وہ بھی ٹھیک ہیں۔ لیکن ہاں آیت سے واقعی مطلب تو یہ نکلتا ہے جو پہلا قول ہے۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں، قیامت کے قریب زمین پر اتریں گے اور یہودیوں و نصرانیوں دونوں کو جھوٹا بتائیں گے اور جو افراط تفریط انہوں نے کی ہے، اسے باطل قرار دیں گے۔ ایک طرف ملعون جماعت یہودیوں کی ہے، جنہوں نے آپ کو آپ کی عزت سے بہت گرا دیا اور ایسی ناپاک باتیں آپ کی شان میں کہیں جن سے ایک بھلا انسان نفرت کرے۔ دوسری جانب نصرانی ہیں جنہوں نے آپ کے مرتبے کو اس قدر بڑھایا کہ جو آپ میں نہ تھا اس کے اثبات میں اتنے بڑھے کہ مقام نبوت سے مقام ربوبیت تک پہنچا دیا جس سے اللہ کی ذات بالکل پاک ہے۔ اب ان احادیث کو سنئے جن میں بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام آخر زمانے میں قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر اتریں گے اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی طرف سب کو بلائیں گے۔ صحیح بخاری شریف جسے ساری امت نے قبول کیا ہے اس میں امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ رحمتہ و الرضوان کتاب ذکر انبیاء میں یہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے۔ عادل منصف بن کر صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ہٹا دیں گے۔ مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اسے لینا کوئی منظور نہ کرے گا، ایک سجدہ کر لینا دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے محبوب تر ہو گا۔ اس حدیث کو بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ نے بطور شہادت قرآنی کے اسی آیت (وان من) کی آخر تک تلاوت کی۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور سند سے یہی روایت بخاری مسلم میں مروی ہے اس میں ہے کہ سجدہ اس وقت فقط اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہو گا۔ اور اس آیت کی تلاوت میں قبل موتہ کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ قبل موت عیسیٰ بن مریم پھر اسے حضرت ابوہریرہ کا تین مرتبہ دوہرانا بھی ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عیسیٰ حج یا عمرے پر یا دونوں پر لبیک کہیں گے، میدان حج میں، روحاء میں۔ یہ حدیث مسلم میں بھی ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے عیسیٰ بن مریم اتریں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو مٹائیں گے، نماز با جماعت ہو گی اور اللہ کی راہ میں مال اس قدر کثرت سے دیا جائے گا کہ کوئی قبول نہ کرنے والا نہ ملے گا۔ خراج چھوڑ دیں گے، روحاء میں جائیں گے اور وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے یا دونوں ایک ساتھ کریں گے۔ پھر ابوہریرہ نے یہی آیت پڑھی لیکن آپ کے شاگرد حضرت حنظلہ کا خیال ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا "حضرت عیسیٰ کے انتقال سے پہلے آپ پر ایمان لائیں گے۔ " مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب حدیث کے ہی الفاظ ہیں یا حضرت ابوہریرہ کے اپنے۔