وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ﴿159﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کوئی اہل کتاب نہیں ہوگا مگر انکی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں کے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس آیا اور کہا کہ یہ کیا بات ہے جو مجھے پہنچی ہے کہ آپ فرماتے ہیں قیامت یہاں یہاں تک آ جائے گی آپ نے سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ کہہ کر فرمایا میرا تو اب جی چاہتا ہے کہ تمہیں اب کوئی حدیث ہی نہ سناؤں، میں نے تو یہ کہا تھا کہ کچھ زمانے کے بعد تم بڑے بڑے امر دیکھو گے، بیت اللہ جلا دیا جائے گا اور یہ ہو گا وہ ہو گا وغیرہ۔ پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دجال نکلے گا اور میری امت میں چالیس تک ٹھہرے گا، مجھے نہیں معلوم کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔ پھر اللہ تعالٰی عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا، آپ کی صورت مثل حضرت عروہ بن مسعود کے ہے۔ آپ اسے تلاش کر کے قتل کریں گے پھر سات سال تک لوگ اسی طرح رہیں گے کہ وہ بھی کچھ عداوت ہو گی، پھر ٹھنڈی ہوا شام کی طرف سے چلے گی اور سب ایمان والوں کو فوت کر دے گی، جس کے دل میں ایک ذرے برابر بھی بھلائی یا ایمان ہو گا اگرچہ وہ کسی پہاڑ کے غار میں ہو وہ بھی فوت ہو جائے گا، پھر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں جیسے ہلکے اور درندوں جیسے دماغوں والے ہوں گے، اچھائی برائی کی کی کوئی تمیز ان میں نہ ہو گی، شیطان ان کے پاس انسانی صورت میں آ کر انہیں بت پرستی کی طرف مائل کرے گا لیکن ان کی اس حالت میں بھی ان کی روزی کے دوازے ان پر کھلے ہوں گے اور زندگی بہ آرام گذر رہی ہو گی، پھر صور پھونکا جائے گا، جس سے لوگ گرنے مرنے لگیں گے، ایک شخص جو اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لئے ان کا حوض ٹھیک کر رہا ہو گا، سب سے پہلے صور کی آواز اس کے کان میں پڑے گی، جس سے یہ اور تمام اور لوگ بیہوش ہو جائیں گے۔ غرض سب کچھ فنا ہو چکنے کے بعد اللہ تعالٰی مینہ برسائے گا، جو مثل شبنم کے یا مثل سائے کے ہو گا، اس سے دوبارہ جسم پیدا ہوں گے پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا، سب کے سب جی اٹھیں گے، پھر کہا جائے گا لوگو اپنے رب کی طرف چلو، انہیں ٹھہرا کر ان سے سوال کیا جائے گا پھر فرمایا جائے گا جہنم کا حصہ نکالو، پوچھا جائے گا کتنوں سے کتنے؟ جواب ملے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے، یہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا اور یہی دن ہے جس میں پنڈلی کھولی جائے گی۔ مسند احمد میں ہے ابن مریم باب لد کے پاس یا لد کی جانب مسیح دجال کو قتل کریں گے۔ ترمذی میں باب لد ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اس کے بعد امام ترمذی نے چند اور صحابہ کے نام بھی لئے ہیں کہ ان سے بھی اس باب کی حدیثیں مروی ہیں تو اس سے مراد وہ حدیثیں ہیں جن میں دجال کا مسیح علیہا لسلام کے ہاتھ سے قتل ہونا مذکور ہے۔ صرف دجال کے ذکر کی حدیثیں تو بیشمار ہیں، جنہیں جمع کرنا سخت دشوار ہے۔ مسند میں ہے کہ عرفے سے آتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ایک مجمع کے پاس سے گذرے اس وقت وہاں قیامت کے ذکر افکار ہو رہے تھے تو آپ نے فرمایا جب تک دس باتیں نہ ہولیں، قیامت قائم نہ ہو گی، آفتاب کا مغرب کی جانب سے نکلنا، دھوئیں کا آنا، دابتہ الارض کا نکلنا، یاجوج ماجوج کا آنا، عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا، دجال کا آنا، تین جگہ زمین کا دھنس جانا، شرق میں، غرب میں اور جزیرہ عرب میں اور عدن سے ایک آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہنکا کر ایک جگہ کر دے گی وہ شب باشی بھی انہی کے ساتھ کریں گے اور جب دوپہر کو وہ آرام کریں گے یہ آگ ان کے ساتھ ٹھہری رہے گی۔ یہ حدیث مسلم اور سنن میں بھی ہے اور حضرت حذیفہ بن اسید غفاری سے موقوفاً یہی مروی ہے واللہ اعلم۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ متواتر حدیثیں جو حضرت ابوہریرہ حضرت ابن مسعود حضرت عثمان بن ابوالعاص، حضرت ابوامامہ، حضرت نواس بن سمعان، حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، ساتھ ہی ان میں یہ بھی بیان ہے کہ کس طرح اتریں گے اور کہاں اتریں گے اور کس وقت اتریں گے؟ یعنی صبح کی نماز کی اقامت کے وقت شام کے شہر دمشق کے شرقی مینارہ پر آپ اتریں گے۔ اس زمانہ میں یعنی سن سات سو اکتالیس میں جامع اموی کا مینارہ سفید پتھر سے بہت مضبوط بنایا گیا ہے، اس لئے کہ آگ کے شعلہ سے یہ جل گیا ہے آگ لگانے والے غالباً ملعون عیسائی تھے کیا عجب کہ یہی وہ مینارہ ہو جس پر مسیح بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور خنزیروں کو قتل کریں گے، صلیبوں کو توڑ دیں گے، جزیئے کو ہٹا دیں گے اور سوائے دین اسلام کے اور کوئی دین قبول نہ فرمائیں گے۔ جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیثیں گذر چکیں، جن میں پیغمبر صادق و مصدق علیہ السلام نے یہ خبر دی ہے اور اسے ثابت بتایا ہے۔ یہ وہ وقت ہو گا جبکہ تمام شک شبے ہٹ جائیں گے، اور لوگ حضرت عیسیٰ کی پیروی کے ماتحت اسلام قبول کرلیں گے۔ جیسے اس آیت میں ہے اور جیسے فرمان ہے آیت (وانہ لعلم للساعتہ) اور ایک قرأت میں (لعلم) ہے۔ یعنی جناب مسیح قیامت کا ایک زبردست نشان ہے، یعنی قرب قیامت کا اس لئے کہ آپ دجال کے آچکنے کے بعد تشریف لائیں گے اور اسے قتل کریں گے۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کا علاج نہ مہیا کیا ہو، آپ ہی کے وقت میں یاجوج ماجوج نکلیں گے، جنہیں اللہ تعالٰی آپ کی دعا کی برکت سے ہلاک کرے گا۔ قرآن کریم ان کے نکلنے کی خبر بھی دیتا ہے، فرمان ہے آیت (حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وھم من کل حدب ینسلون واقترب الوعد الحق) یعنی ان کا نکلنا بھی قرب قیامت کی دلیل ہے۔

اب حضرت عیسیٰ کی صفتیں ملاحظہ ہوں ۔ پہلے کی دو احادیث میں بھی آپ کی صفت گذر چکی ہے، بخاری مسلم میں ہے کہ لیلتہ المعراج میں میں نے حضرت موسیٰ سے ملاقات کی وہ درمیانہ قد صاف بالوں والے ہیں، جیسی شنوہ قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں اور حضرت عیسیٰ سے بھی ملاقات کی، وہ سرخ رنگ میانہ قد ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ابھی حمام سے نکلے ہیں، حضرت ابراہیم کو بھی میں نے دیکھا بس وہ بالکل مجھ جیسے تھے۔ بخاری کی اور روایت میں ہے "حضرت عیسیٰ سرخ رنگ، گھنگریالے بالوں والے، چوڑے چکلے سینے والے تھے، حضرت موسیٰ گندمی رنگ کے جسم اور سیدھے بالوں والے تھے، جیسے زط کے لوگ ہوتے ہیں ، اسی طرح آپ نے دجال کی شکل و صورت بھی بیان فرما دی ہے کہ اس کی داہنی آنکھ کافی ہو گی، جیسے پھولا ہوا انگور، آپ فرماتے ہیں مجھے کعبہ کے پاس خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بہت گندمی رنگ والے آدمی جن کے سر کے پٹھے دونوں کندھوں تک تھے، صاف بالوں والے جن کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے طواف کر رہے ہیں، میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ مسیح بن مریم ہیں، میں نے ان کے پیچھے ہی ایک شخص کو دیکھا جس کی داہنی آنکھ کافی تھی، ابن قطن سے بہت ملتا جلتا تھا، سخت الجھے ہوئے بال تھے، وہ بھی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے، میں نے کہا یہ کون یہ؟ کہا گیا یہ مسیح دجال ہے۔ بخاری کی اور روایت میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ اللہ کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو سرخ رنگ نہیں بتایا بلکہ آپ نے گندمی رنگ بتایا ہے، پھر اوپر والی پوری حدیث ہے۔ حضرت زہری فرماتے ہیں ابن قطن قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا، جو جاہلیت میں مر چکا تھا۔ وہ حدیث بھی گذر چکی جس میں یہ بیان ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام اپنے نزول کے بعد چالیس سال یہاں رہیں گے پھر فوت ہوں گے اور مسلمان آپ کے جنازے کی نماز ادا کریں گے۔ ہاں مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ یہاں سال ہا سال رہیں گے، تو ممکن ہے کہ چالیس سال کا فرمان اس مدت سمیت کا ہو جو آپ نے دنیا میں اپنے آسمانوں پر اٹھائے جانے پہلے گذاری ہے۔ جس وقت آپ اٹھائے گئے اس وقت آپ کی عمر تینتیس سال کی تھی اور سات سال اب آخر زمانے کے تو پورے چالیس سال ہو گئے۔ واللہ اعلم (ابن عساکر) بعض کا قول ہے کہ جب آپ آسمانوں پر چڑھائے گئے اس وقت آپ کی عمر ڈیڑھ سال کی تھی، یہ بالکل فضول سا قول ہے، ہاں حافظ ابو القاسم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں بعض سلف سے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں آپ کے ساتھ دفن کئے جائیں گے واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہے کہ یہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے یعنی اس بات کے کہ اللہ کی رسالت آپ نے انہیں پہنچا دی تھی اور خود آپ نے اللہ کی عبودیت کا اقرار کیا تھا، جیسے سورہ مائدہ کے آخر میں آیت (واذ قال اللہ) سے (الحکیم) تک ہے یعنی آپ کی گواہی کا وہاں ذکر ہے اور اللہ کے سوال کا۔