يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا ﴿174﴾
‏ [جالندھری]‏ لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس دلیل (روشن) آچکی ہے۔ اور ہم نے (کفر اور ضلالت کا اندھیرا دور کرنے کو) تمہاری طرف چمکتا ہوا نور بھیج دیا ہے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
قرآن مجید اللہ تعالٰی کی مکمل دلیل اور حجت تمام ہے 
اللہ تبارک و تعالٰی تمام انسانوں کو فرماتا ہے کہ میری طرف سے کامل دلیل اور عذر معذرت کو توڑ دینے والی ، شک و شبہ کو الگ کرنے والی برہان (دلیل) تمہاری طرف نازل ہو چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف کھلا نور صاف روشنی پورا اجالا اتار دیا ہے، جس سے حق کی راہ صحیح طور پر واضح ہو جاتی ہے۔ ابن جریج وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن کریم ہے۔ اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور توکل اور بھروسہ اسی پر کریں، اس سے مضبوط رابطہ کر لیں، اس کی سرکار میں ملازمت کر لیں، مقام عبودیت اور مقام توکل میں قائم ہو جائیں، تمام امور اسی کو سونپ دیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ پر ایمان لائیں اور مضبوطی کے ساتھ اللہ کی کتاب کو تھام لیں ان پر اللہ اپنا رحم کرے گا، اپنا فضل ان پر نازل فرمائے گا، نعمتوں اور سرور والی جنت میں انہیں لے جائے گا، ان کے ثواب بڑھا دے گا، ان کے درجے بلند کر دے گا اور انہیں اپنی طرف لے جانے والی سیدھی اور صاف راہ دکھائے گا، جو کہیں سے ٹیڑھی نہیں، کہیں سے تنگ نہیں۔ گویا وہ دنیا میں صراط مستقیم پر ہوتا ہے۔ راہ اسلام پر ہوتا ہے اور آخرت میں راہ جنت پر اور راہ سلامتی پر ہوتا ہے۔ شروع تفسیر میں ایک پوری حدیث گذر چکی ہے جس میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ کی سیدھی راہ اور اللہ کی مضبوط رسی قرآن کریم ہے۔