يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ﴿1﴾
‏ [جالندھری]‏ اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے چار پائے جانور ( جو چرنے والے ہیں) حلال کردیے گئے بجز انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ایک بےدلیل روایت اور وفائے عہد کی تاکید
ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا! آپ مجھے خاص نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا "جب تو قرآن میں لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) سن لے تو فوراً کان لگا کر دل سے متوجہ ہو جا، کیونکہ اس کے بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہو گی۔ " حضرت زہری فرماتے ہیں "جہاں کہیں اللہ تعالٰی نے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے اس حکم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں۔ " حضرت فیثمہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بجائے (یا ایھا الذین امنوا) کے (یاایھا المساکین) ہے۔ ایک روایت ابن عباس کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ جہاں کہیں لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) ہے ، ان تمام مواقع پر ان سب ایمان والوں کے سردار و شریف اور امیر حضرت علی ہیں، اصحاب رسول میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز حضرت علی بن ابوطالب کے کہ انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا، یاد رہے کہ یہ اثر بالکل بےدلیل ہے۔ اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بھی صحیح نہیں۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے۔ میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلیٰ درجہ کا شیعہ ہے۔ پھر بھلا اس کی ایسی روایت جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو، کیسے قبول کی جا سکے گی؟ یقینا وہ اس میں ناقابل قبول ٹھہرے گا، اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام صحابہ کو بجز حضرت علی کے ڈانٹا گیا، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف حضرت علی ہی نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ آیت (ااشفقتم ان تقدموا) الخ، لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تھا ہی نہیں، اختیاری امر تھا۔ پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالٰی نے اسے منسوخ کر دیا۔ پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سرزد ہی نہیں ہوا۔ پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت علی کو کسی بات میں ڈانٹا نہیں گیا۔ سورہ انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کو ڈانٹا گیا ہے۔ جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے باقی تمام صحابہ کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر کے باقی سب کو ہے، جن میں حضرت علی بھی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے، واللہ اعلم۔ ابن جریر میں حضرت محمد بن سلمہ فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھوا کر دی تھی جبکہ انہیں نجران بھیجا تھا، اس کتاب کو میں نے ابوبکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑھا تھا، اس میں اللہ اور رسول کے بہت سے احکام تھے، اس میں آیت (یاایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود) سے آیت (ان اللہ سریع الحساب) تک بھی لکھا ہوا تھا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمرو بن حزم کے پوتے حضرت ابوبکر بن محمد نے فرمایا ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کتاب ہے جسے آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھ کر دی تھی جبکہ انہیں یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے کے لئے اور ان سے زکوۃ وصول کرنے کے لئے یمن بھیجا تھا، اس وقت یہ کتاب لکھ کر دی تھی، اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان یہ۔ اس میں آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) کے بعد لکھا ہے یہ کتاب ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو، یہ عہد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرو بن حزم کے لئے ہے جبکہ انہیں یمن بھیجا انہیں اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہنے کا حکم ہے یقیناً اللہ تعالٰی ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہیں اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں "عقود سے مراد عہد ہیں۔ " ابن جریر اس پر اجماع بتاتے ہیں۔ خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے ہوں، سب کو پورا کرنا فرض ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ "عہد کو پورا کرنے میں اللہ کے حلال کو حلال جاننا، اس کے حرام کو حرام جاننا، اس کے فرائض کی پابندی کرنا، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بھی ہے، کسی بات کا خلاف نہ کرو، حد کو نہ توڑو، کسی حرام کام کو نہ کرو، اس پر سختی بہت ہے۔ پڑھو آیت (والذین ینقضون عہد اللہ) کو سوء الدار تک۔ " حضرت ضحاک فرماتے ہیں "اس سے مراد یہ کہ اللہ کے حلال کو، اس کے حرام کو، اس کے وعدوں کو، جو ایمان کے بعد ہر مومن کے ذمہ آ جاتے ہیں پورا کرنا اللہ کی طرف سے فرض ہے، فرائض کی پابندی، حلال حرام کی عقیدت مندی وغیرہ وغیرہ"حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں "یہ چھ عہد ہیں، اللہ کا عہد ، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد، شرکت کا عہد، تجارت کا عہد، نکاح کا عہد اور قسمیہ وعدہ" محمد بن کعب کہتے ہیں "پانچ ہیں، جن میں جاہلیت کے زمانہ کی قسمیں ہیں اور شرکت تجارت کے عہد و پیمان ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ خرید و فروخت پوری ہو چکنے کے بعد گو اب تک خریدا اور بیچنے والے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں تاہم واپس لوٹانے کا اختیار نہیں وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے ہیں۔ " امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا یہی مذہب ہے، لیکن امام شافعی اور امام احمد اس کے خلاف ہیں اور جمہور علماء کرام بھی اس کے مخالف ہیں ، اور دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری مسلم میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "خرید و فروخت کرنے والوں کو سودے کے واپس لینے دینے کا اختیار ہے جب تک کہ جدا جدا نہ ہو جائیں" صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ "جب وہ شخصوں نے خرید و فروخت کر لی تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ ہونے تک اختیار باقی ہے۔ یہ حدیث صاف اور صریح ہے کہ یہ اختیار خرید و فروخت پورے ہو چکنے کے بعد کا ہے۔ ہاں اسے بیع کے لازم ہو جانے کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا مقتضی ہے، پس اسے نبھانا بھی اسی آیت کے ماتحت ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے مویشی چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے ہیں یعنی اونٹ، گائے، بکری۔ ابوالحسن، قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں "عرب میں ان کے لغت کے مطابق بھی یہی ہے" حضرت ابن عمر حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے بزرگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے گو وہ مردہ ہو پھر بھی حلال ہے۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اونٹنی، گائے، بکری ذبح کی جاتی ہے، ان کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کھا لیں یا پھینک دیں۔ آپ نے فرمایا "اگر چاہو کھا لو ، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذیبحہ ہے۔ "امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں، ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "پیٹ کے اندر والے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے۔ "پھر فرماتا ہے مگر وہ جن کا بیان تمہارے سامنے کیا جائے گا۔ ابن عباس فرماتے ہیں "اس سے مطلب مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ہے۔ " حضرت قتادہ فرماتے ہیں "مراد اس سے از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہوے جس کے ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو" پورا علم تو اللہ تعالٰی کو ہی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا فرمان آیت (حرمت علیکم المیتتہ) ہے یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر منسوب و مشہور کی جائے اور جو گلا گھونٹنے سے مر جائے، کسی ضرب سے مر جائے، اونچی جگہ سے گر کر مر جائے اور کسی ٹکر لگنے سے مر جائے، جسے درندہ کھانے لگے پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے ہیں لیکن ان وجوہ سے وہ حرام ہو جاتے ہیں اسی لئے اس کے بعد فرمایا لیکن جس کو ذبح کر ڈالو۔ جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جائے، وہ بھی حرام ہے اور ایسا حرام کہ اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں، اسی لئے اس سے استدراک نہیں کیا گیا اور حلال کے ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں گیا، پس یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ چوپائے مویشی تم پر حلال ہیں لیکن وہ جن کا ذکر ابھی آئے گا۔ بعض احوال میں حرام ہیں، اس کے بعد کا جملہ حالیت کی بناء پر منصوب ہے۔ مراد انعام سے عام ہے بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے پلتے ہیں، جیسے اونٹ، گائے، بکری اور بعض وہ جو جنگلی ہیں جیسے ہرن، نیل گائے اور جنگلی گدھے، پس پالتو جانوروں میں سے تو ان کو مخصوص کر لیا جو بیان ہوئے اور وحشی جانوروں میں سے احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے "ہم نے تمہارے لئے چوپائے جانور ہر حال میں حلال کئے ہیں پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے سے رک جاؤ اور اسے حرام جانو" کیونکہ اللہ تعالٰی کا یہی حکم ہے جس طرح اس کے تمام احکام سراسر حکمت سے پر ہیں، اسی طرح اس کی ہر ممانعت میں بھی حکمت ہے، اللہ وہ حکم فرماتا ہے جو ارادہ کرتا ہے۔ ایماندار! رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو، یعنی مناسک حج، صفا، مروہ، قربانی کے جانور، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز، حرمت والے مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو، ان کا ادب کرو، ان کا لحاظ رکھو، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے بچو اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے دشمنوں سے از خود لڑائی نہ چھیڑو۔ جیسے ارشاد ہے آیت (یسئلونک عن الشھر الحرام) اے نبی لوگ تم سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کا حکم پوچھتے ہیں تم ان سے کہو کہ ان میں لڑائی کرنا گناہ ہے اور آیت میں ہے مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الودع میں فرمایا "زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آ گیا ہے جس پر وہ اس وقت تھا، جس دن اللہ تعالٰی نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں۔ تین تو یکے بعد دیگرے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب، جسے قبیلہ مضر رجب کہتا ہے جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان یہ۔ " اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مہینوں کی حرمت تاقیامت ہے جیسے کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ان "مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کر لیا کرو۔ " لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور حرمت والے مہینوں میں بھی دشمنان اسلام سے جہاد کی ابتداء کرنا بھی جائز ہے۔ ان کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے آیت (فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) یعنی جب حرمت والے مہینے گذر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور مراد یہاں ان چار مہینوں کا گذر جانا ہے، جب وہ چار مہینے گذر چکے جو اس وقت تھے، تو اب ان کے بعد برابر جہاد جاری ہے اور قرآن نے پھر کوئی مہینہ خاص نہیں کیا، بلکہ امام ابو جعفر تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ "اللہ تعالٰی نے مشرکین سے جہاد کرنا، ہر وقت اور ہر مہینے میں جاری ہی رکھا ہے۔ " آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اجماع ہے کہ "اگر کوئی کافر حرم کے تمام درختوں کی چھال اپنے اوپر لپیٹ لے تب بھی اس کے لئے امن و امان نہ سمجھی جائے گی۔ اگر مسلمانوں نے از خود اس سے پہلے اسے امن نہ دیا ہو۔ " اس مسئلہ کی پوری بحث یہاں نہیں ہو سکتی۔ پھر فرمایا کہ ھدی اور قلائد کی بےحرمتی بھی مت کرو۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو، کیونکہ اس میں اللہ کی نشانوں کی تعظیم ہے اور قربانی کے لئے جو اونٹ بیت الحرام کی طرف بھیجو، ان کے گلے میں بطور نشان پٹا ڈالنے سے بھی نہ رکو۔ تا کہ اس نشان سے ہر کوئی پہچان لے کہ یہ جانور اللہ کے لئے اللہ کی راہ کے لئے وقف ہو چکا ہے اب اسے کوئی برائی سے ہاتھ نہ لگائے گا بلکہ اسے دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی اس طرح اللہ کے نام جانور بھیجیں اور اس صورت میں تمہیں اس کی نیکی پر بھی اجر ملے گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے اسے بھی وہ اجر ملے گا، جو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ بھی خیال رہے اللہ تعالٰی ان کے اجر کو کم کر کے اسے نہیں دے گا بلکہ اسے اپنے پاس سے عطا فرمائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لئے نکلے تو آپ نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گذاری، صبح اپنی نو بیویوں کے پاس گئے، پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے کا احرام باندھا۔ قربانی کے لئے آپ نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اوپر اپنے ساتھ لئے تھے، جیسے کہ قرآن کا فرمان ہے جو شخص اللہ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقوے والا ہے۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ "تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے اور انہیں خوب کھلایا جائے اور مضبوط اور موٹا کیا جائے۔ " حضرت علی بن ابوطالب فرماتے ہیں "ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں" (رواہ اہل السنن) مقاتل بن حیان فرماتے ہیں "جاہلیت کے زمانے میں جب یہ لوگ اپنے وطن سے نکلتے تھے اور حرمت والے مہینے نہیں ہوتے تھے تو یہ اپنے اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے تھے اور حرم میں رہنے والے مشرک لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں اپنے جسم پر باندھ لیتے تھے، اس سے عام لوگ انہیں امن دیتے تھے اور ان کو مارتے پیٹتے نہ تھے۔ " حضرت ابن عباس سے بروایت حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ اس سورت کی دو آیتیں منسوخ ہیں "آیت قلائد اور یہ آیت (فان جاوک فاحکم بینھم او اعرض عنھم)" لیکن حضرت حسن سے جب سوال ہوتا ہے کہ "کیا اس سورت میں سے کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے؟ " تو آپ فرماتے ہیں "نہیں" حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ "وہ لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں لٹکا لیا کرتے تھے اور اس سے انہیں امن ملتا تھا، پس اللہ تعالٰی نے حرم کے درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا۔ " پھر فرماتا ہے "جو لوگ بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہوں، ان سے لڑائی مت لڑو۔ یہاں جو آئے وہ امن میں پہنچ گیا، پس جو اس کے قصد سے چلا ہے اس کی نیت اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضامندی کی جستجو ہے تو اب اسے ڈر خوف کے دباؤ میں نہ رکھو، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے بیت اللہ سے نہ روکو۔ " بعض کا قول ہے کہ "اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد تجارت ہے۔ " جیسے اس آیت میں ہے (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم) یعنی زمانہ حج میں تجارت کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ رضوان سے مراد حج کرنے میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں "یہ آیت خطیم بن ہند، بکری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس شخص نے مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈالا تھا پھر اگلے سال یہ عمرے کے ارادے سے آ رہا تھا تو بعض صحابہ کا ارادہ ہوا کہ اسے راستے میں روکیں، اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ " امام ابن جرید نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ "جو مشرک مسلمانوں کی امان لئے ہوئے نہ ہو تو چاہے وہ بیت اللہ شریف کے ارادے سے جا رہا ہو یا بیت المقدس کے ارادے سے، اسے قتل کرنا جائز ہے یہ حکم ان کے حق میں منسوخ ہے واللہ اعلم وہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے کیلئے جا رہا ہے اور شرک و کفر کے ارادے کا قصد کرتا ہو تو اسے روکا جائے گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں پہلے مومن و مشرک سب حج کرتے تھے اور اللہ تعالٰی کی ممانعت تھی کہ کسی مومن کافر کو نہ روکو لیکن اس کے بعد یہ آیت اتری کہ (انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا) یعنی مشرکین سراسر نجس ہیں اور وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ آئیں گے اور فرمان ہے آیت (انمام یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر) یعنی مشرکین اللہ کی مسجد کو آباد رکھنے کے ہرگز اہل نہیں فرمان ہے آیت (انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر) یعنی اللہ کی مسجد کو تو صرف وہی آباد رکھ سکتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔ پس مشرکین مسجدوں سے روک دیئے گئے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں منسوخ ہے، جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے میں اسے کوئی نہ ستاتا، پھر لوٹتے وقت بالوں کا ہار ڈال لیتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے روکے نہ جاتے تھے، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے پاس لڑیں، پھر اس حکم کو اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ مشرکین سے لڑو جہاں کہیں انہیں پاؤ۔ " ابن جریر کا قول ہے کہ "قلائد سے مراد یہی ہے جو ہار وہ حرم سے گلے میں ڈال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے امن میں رہتے تھے، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آ رہی تھی اور جو اس کے خلاف کرتا تھا اسے بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کو ہجو کرتے تھے" پھر فرماتا ہے "جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کر سکتے ہو" احرام میں شکار کی ممانعت تھی، اب احرام کے بعد پھر اس کی اباحت ہو گئی جو حکم ممانعت کے بعد ہو اس حکم سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ممانعت سے پہلے اصل میں تھا۔ یعنی اگر وجوب اصلی تھا تو ممانعت کے بعد کا امر بھی وجوب کیلئے ہو گا۔ اور اسی طرح مستحب و مباح کے بارے میں۔ گو بعض نے کہا ہے کہ ایسا امر وجوب کیلۓ ہی ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے، صرف مباح ہونے کیلئے ہی ہوتا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے خلاف قرآن کی آیتیں موجود ہیں۔ پس صحیح مذہب جس سے تمام دلیلیں مل جائیں وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے بھی اسے ہی اختیار کیا واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے جس قوم نے تمہیں حدیبیہ والے سال مسجد حرام سے روکا تھا تو تم ان سے دشمنی باندھ کر قصاص پر آمادہ ہو کر اللہ کے حکم سے آگے بڑھ کر ظلم و زیادتی پر نہ اتر آنا، بلکہ تمہیں کسی وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہئے۔ اسی طرح کی وہ آیت بھی ہے جس میں فرمایا ہے "تمہیں کسی قسم کی عداوت خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو، عدل ہی تقوے سے زیادہ قریب ہے۔ " بعض سلف کا قول ہے کہ "گو کوئی تجھ سے تیرے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے لیکن تجھے چاہئے کہ تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمانبرداری ہی کرے۔ عدل ہی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہے۔ " حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے اصحاب کو جبکہ مشرکین نے بیت اللہ کی زیارت سے روکا اور حدیبیہ سے آگے بڑھنے ہی نہ دیا، اسی رنج و غم میں صحابہ واپس آ رہے تھے جو مشرقی مشرک مکہ جاتے ہوئے انہیں ملے تو ان کا ارادہ ہوا کہ جیسے ان کے گروہوں نے ہمیں روکا ہم بھی انہیں ان تک نہ جانے دیں۔ اس پر یہ آیت اتری (شنان) کے معنی بغض کے ہیں بعض عرب اسے شنان بھی کہتے ہیں لیکن کسی قاری کی یہ قرأت مروی نہیں، ہاں عربی شعروں میں شنتان بھی آیا ہے، پھر اللہ تعالٰی اپنے ایمان والے بندوں کو نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کی تائید کرنے کو فرماتا ہے، بر" کہتے ہیں نیکیاں کرنے کو اور تقویٰ " کہتے ہیں برائیوں کے چھوڑنے کو اور انہیں منع فرماتا ہے گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے کو ابن جریر فرماتے ہیں جس کام کے کرنے کا اللہ کا حکم ہو اور انسان اسے نہ کرے، یہ اثم" ہے اور دین میں جو حدیں اللہ نے مقرر کر دی ہیں جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے بارے میں جناب باری نے مقرر فرمائے ہیں، ان سے آگے نکل جانا عدوان ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے "اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو" تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم ہونے کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کریں؟ " فرمایا "اسے ظلم نہ کرنے دو، ظلم سے روک لو، یہی اس وقت کی اس کی مدد ہے" یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں ہے "جو مسلمان لوگوں سے ملے جلے اور دین کے حوالے سے ان کی ایذاؤں پر صبر کرے وہ ان مسلمانوں سے بڑے اجر والا ہے، جو نہ لوگوں سے ملے جلے، نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے" مسند بزار میں ہے "جو شخص کسی بھلی بات کی دوسرے کو ہدایت کرے وہ اس بھلائی کے کرنے والے جیسا ہی ہے" امام ابوبکر بزار اسے بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ "یہ حدیث صرف اسی ایک سند سے مروی ہے۔ " لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے، اسے ان تمام کے بابر ثواب ملے گا جو قیامت تک آئیں گے اور اس کی تابعداری کریں گے۔ لیکن ان کے ثواب میں سے گھٹا کر نہیں اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی کو کریں گے۔ ان سب کا جتنا گناہ ہو گا، وہ سارا اس اکیلے کو ہو گا۔ لیکن ان کے گناہ گھٹا کر نہیں۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "جو شخص کسی ظالم کے ساتھ جائے تاکہ اس کی اعانت و امداد کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے وہ یقینا دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ،