يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿51﴾
‏ [جالندھری]‏ اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
دشمن اسلام سے دوستی منع ہے
دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالٰی ممانعت فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ "وہ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارے دین سے انہیں بغض و عداوت ہے۔ ہاں اپنے والوں سے ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں۔ میرے نزدیک تو جو بھی ان سے دلی محبت رکھے وہ ان ہی میں سے ہے"۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے فرمایا لوگو! تمہیں اس سے بچنا چاہئے کہ تمہیں خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ ، ہم سمجھ گئے کہ آپ کی مراد اسی آیت کے مضمون سے ہے۔ ابن عباس سے عرب نصرانیوں کے ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے یہی آیت تلاوت کی۔ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے ساز باز اور محبت و مودت کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آ گئے تو پھر ہماری تباہی کر دیں گے ، اس لئے ہم ان سے بھی میل ملاپ رکھتے ہیں ، ہم کیوں کسی سے بگاڑیں؟ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ممکن ہے اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے ، مکہ بھی ان کے ہاتھوں فتح ہو جائے ، فیصلے اور حکم ان ہی کے چلنے لگیں ، حکومت ان کے قدموں میں سر ڈال دے۔ یا اللہ تعالٰی اور کوئی چیز اپنے پاس سے لائے یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے انہیں ذلیل کر کے ان سے جزیہ لینے کا حکم مسلمانوں کو دے دے پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے گہری دوستی کرتے پھرتے ہیں ، بڑے بھنانے لگیں گے اور اپنی اس چالاکی پر خون کے آنسو بہانے لگیں گے۔ ان کے پردے کھل جائیں گے اور یہ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر سے نظر آئیں گے۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے اور کہیں گے اے لو یہی وہ لوگ ہیں ، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہو گئے۔ (ویقول) تو جمہور کی قرأت ہے۔ ایک قرأت بغیر واؤ کے بھی ہے اہل مدینہ کی یہی قرأت ہے۔ یقول تو مبتداء اور دوسری قرأت اس کی (یقول) ہے تو یہ (فعسی) پر عطف ہو گا گویا (وان یقول) ہے۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے ، دوسرے نے کہا ، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں ، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ عکرمہ فرماتے ہیں "لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ تو آپ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے"۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں ، مجھے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی کافی ہے۔ اس پر اس منافق نے کہا میں دور اندیش ہوں ، دور کی سوچنے کا عادی ہوں ، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا ، نہ جانے کس وقت کیا موقعہ پڑ جائے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبداللہ تو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا ، اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ "جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو ، اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کر لو انہوں نے جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون سے بےبہرہ ہیں ، فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہو جانا ، ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں بتا دیں گے کہ لڑائی اسے کہتے ہیں۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہو چکا ہے۔ جب یہودیوں کے اس قبیلہ سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آ گئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ سے کہنے لگا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجئے ، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ، اس نے پھر کہا ، آپ نے منہ موڑ لیا ، یہ آپ کے دامن سے چپک گیا ، آپ نے غصہ سے فرمایا کہ چھوڑ دے ، اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نہ چھوڑوں گا ، یہاں تک کہ آپ ان کے بارے میں احسان کریں ، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جا وہ سب تیرے لئے ہیں"۔ ایک روایت میں ہے کہ "جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کرنے لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی"۔ اس پر یہ آیتیں (ہم الغالبون) تک اتریں۔ مسند احمد میں ہے کہ "اس منافق عبداللہ بن ابی کی عیادت کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا ، میں نے تو تجھے بار ہا ان یہودیوں کی محبت سے روکا تو اس نے کہا سعد بن زرارہ تو ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مر گیا"۔