وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿64﴾
‏ [جالندھری]‏ اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ (گردن سے) بندھا ہوا ہے۔ (یعنی اللہ بخیل ہے) انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایسا کہنے کے سبب ان پر لعنت ہو۔ (بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں) وہ جتنا چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اے محمد یہ کتاب جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے اس سے ان میں سے اکثر کی شرارت اور انکار اور بڑھے گا اور ہم نے اُنکے باہم عداوت اور بغض قیامت تک کیلئے ڈال دیا ہے۔ یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں تو خدا اس کو بجھا دیتا ہے اور یہ ملک میں فساد کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
بخل سے بچو اور فضول خرچی سے ہاتھ روکو
اللہ تعالی ملعون یہودیوں کا ایک خبیث قول بیان فرما رہا ہے کہ یہ اللہ کو بخیل کہتے تھے ، یہی لوگ اللہ کو فقیر بھی کہتے ہیں۔ اللہ کی ذات ان کے اس ناپاک مقولے سے بہت بلند و بالا ہے۔ پس اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، مطلب ان کا یہ نہ تھا کہ ہاتھ جکڑ دیئے گئے ہیں بلکہ مراد اس سے بخل تھا۔ یہی محاورہ قرآن میں اور جگہ بھی ہے فرماتا ہے آیت (ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک) الخ۔ یعنی اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ بھی نہ لے اور نہ حد سے زیادہ پھیلا دے کہ پھر تھکان اور ندامت کے ساتھ بیٹھے رہنا پڑے ، پس بخل سے اور اسراف سے اللہ نے اس آیت میں روکا۔ پس ملعون یہودیوں کی بھی ہاتھ باندھا ہوا ہونے سے یہی مراد تھی۔ فخاص نامی یہودی نے یہ کہا تھا اور اسی ملعون کا وہ دوسرا قول بھی تھا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ جس پر حضرت صدیق اکبر نے اسے پیٹا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ شماس بن قیس نے یہی کہا تھا جس پر یہ آیت اتری۔ اور ارشاد ہوا کہ بخیل اور کنجوس ذلیل اور بزدل یہ لوگ خود ہیں۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ اگر یہ بادشاہ بن جائیں تو کسی کو کچھ بھی نہ دیں۔ بلکہ یہ تو اوروں کی نعمتیں دیکھ کر جلتے ہیں۔ یہ ذلیل تر لوگ ہیں۔ بلکہ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں وہ سب کچھ خرچ کرتا رہتا ہے اس کا فضل وسیع ہے ، اس کی بخشش عام ہے ، ہر چیز کے خزانے اس کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہر نعمت اس کی طرف سے ہے۔ ساری مخلوق دن رات ہر وقت ہر جگہ اسی کی محتاج ہے۔ فرماتا ہے آیت (واتاکم من کل ماسألتموہ وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا ان الاانسان لظلوم کفار)۔ "تم نے جو مانگا ، اللہ نے دیا ، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کر سکتے ، یقینا انسان بڑا ہی ظالم بیحد ناشکرا ہے"۔ مسند میں حدیث ہے کہ "اللہ تعالٰی کا داہنا ہاتھ اوپر ہے ، دن رات کا خرچ اس کے خزانے کو گھٹاتا نہیں ، شروع سے لے کر آج تک جو کچھ بھی اس نے اپنی مخلوق کو عطا فرمایا ، اس نے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس کا عرش پہلے پانی پر تھا ، اسی کے ہاتھ میں فیض ہی فیض ہے ، وہی بلند اور پست کرتا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو تم میری راہ میں خرچ کرو گے تم تو دیئے جاؤں گے"۔ بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث ہے۔ پھر فرمایا "اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جس قدر اللہ کی نعمتیں تم پر زیادہ ہوں گی ، اتنا ہی ان شیاطین کا کفر حسد اور جلاپا بڑھے گا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مومنوں کا ایمان اور ان کی تسلیم و اطاعت بڑھتی ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے۔(قل ھو للذین امنوا ھدی وشفاء ) ۔ ایمان والوں کیلئے تو یہ ہدایت و شفا ہے اور بے ایمان اس سے اندھے بہرے ہوتے ہیں۔ یہی ہیں جو دروازے سے پکارے جاتے ہیں۔ اور آیت میں ہے (وننزل من القرآن) ہم نے وہ قرآن اتارا ہے جو مومنوں کیلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کا تو نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ ان کے دلوں میں سے خود آپس کا بغض و بیر بھی قیامت تک نہیں مٹے گا ، ایک دوسرے کا آپس میں ہی خون پینے والے لوگ ہیں۔ ناممکن ہے کہ یہ حق پر جم جائیں ، یہ اپنے ہی دین میں فرقہ فرقہ ہو رہے ہیں ، ان کے جھگڑے اور عداوتیں آپس میں جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔ یہ لوگ بسا اوقات لڑائی کے سامان کرتے ہیں ، تیرے خلاف چاروں طرف ایک آگ بھڑکانا چاہتے ہیں لیکن ہر مرتبہ منہ کی کھاتے ہیں ، ان کا مکر انہی پر لوٹ جاتا ہے ، یہ مفسد لوگ ہیں اور اللہ کے دشمن ہیں ، کسی مفسد کو اللہ اپنا دوست نہیں بناتا۔ اگر یہ با ایمان اور پرہیزگار بن جائیں تو ہم ان سے تمام ڈر دور کر دیں اور اصل مقصد حیات سے انہیں ملا دیں۔ اگر یہ تورات و انجیل اور اس قرآن کو مان لیں کیونکہ توراۃ و انجیل کا ماننا ، قرآن کے ماننے کو لازم کر دے گا ، ان کتابوں کی صحیح تعلیم یہی ہے کہ یہ قرآن سچا ہے اس کی اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پہلے کی کتابوں میں موجود ہے تو اگر یہ اپنی ان کتابوں کو بغیر تحریف و تبدیل اور تاویل و تفسیر کے مانیں تو وہ انہیں اسی اسلام کی ہدایت دیں گی ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں۔ اس صورت میں اللہ انہیں دنیا کے کئی فائدے دے گا ، آسمان سے پانی برسائے گا ، زمین سے پیداوار اگائے گا ، نیچے اوپر کی یعنی زمین و آسمان کی برکتیں انہیں مل جائیں گی۔ " جیسے اور آیت میں ہے آیت (ولو ان اھل القری امنوا واتقوا) یعنی اگر بستیوں والے ایمان لاتے ہیں اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتیں نازل فرماتے۔ اور آیت میں (ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس) ۔ لوگوں کی برائیوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے ، اور یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ بغیر مشقت و مشکل کے ہم انہیں بکثرت بابرکت روزیاں دیتے ہیں ، بعض نے اس جملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ لوگ ایسا کرتے تو بھلائیوں سے مستفید ہو جاتے۔ لیکن یہ قول اقوال سلف کے خلاف ہے۔ اب ابی حاتم نے اس جگہ ایک اثر وارد کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریب ہے کہ علم اٹھا لیا جائے۔ یہ سن کر حضرت زیاد بن لبید نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ علم اٹھ جائے ، ہم نے قرآن سیکھا ، اپنی اولادوں کو سکھایا۔ آپ نے فرمایا افسوس میں تو تمام مدینے والوں سے زیادہ تم کو سمجھدار جانتا تھا لیکن کیا تو نہیں دیکھتا کہ یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں میں بھی تورات و انجیل ہے۔ لیکن کس کام کی؟ جبکہ انہوں نے اللہ کے احکام چھوڑ دیئے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی"۔ یہ حدیث مسند میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کا بیان فرمایا کہ یہ بات علم کے جاتے رہنے کے وقت ہو گی ، اس پر حضرت ابن لبید نے کہا علم کیسے جاتا رہے گا؟ ہم قرآن پڑھے ہوئے ہیں اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں ، وہ اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے ، یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ، اس پر آپ نے یہ فرمایا جو اوپر بیان ہوا۔ پھر فرمایا ان میں ایک جماعت میانہ رو بھی ہے مگر اکثر بداعمال ہے۔ جیسے فرمان آیت (ومن قوم موسیٰ امتہ یھدون بالحق وبہ یعدلون) موسیٰ کی قوم میں سے ایک گروہ حق کی ہدایت کرنے والا اور اسی کے ساتھ عدل انصاف کرنے والا بھی تھا۔ اور قوم عیسیٰ کے بارے میں فرمان ہے ۔ آیت (فاتینا الذین امنوا منھم اجرھم) ان میں سے با ایمان لوگوں کو ہم نے ان کے ثواب عنایت فرمائے ، یہ نکتہ خیال میں رہے کہ ان کا بہترین درجہ بیچ کا درجہ بیان فرمایا اور اس امت کا یہ درجہ دوسرا درجہ ہے ، جس پر ایک تیسرا اونچا درجہ بھی ہے۔ جیسے فرمایا ۔ آیت (ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا) ۔ یعنی پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے چیدہ بندوں کو بنایا ، ان میں سے بعض تو اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں ، بعض میانہ رو ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں ، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ تینوں قسمیں اس امت کی داخل جنت ہونے والی ہیں۔ ابن مردویہ میں ہے کہ صحابہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "موسیٰ کی امت کے اکہتر گروہ ہو گئے ، جن میں سے ایک تو جنتی ہے ، باقی ستر دوزخی۔ میری یہ امت دونوں سے بڑھ جائے گی۔ ان کا بھی ایک گروہ تو جنت میں جائے گا ، باقی بہتر گروہ جہنم میں جائیں گے ، لوگوں نے پوچھا ، وہ کون ہیں؟ فرمایا جماعتیں جماعتیں"۔ یعقوب بن یزید کہتے ہیں جب حضرت علی بن ابو طالب یہ حدیث بیان کرتے تو قرآن کی آیت ۔ (ولوان اھل الکتاب امنوا واتقوا) الخ ۔ اور وممن خلقنا امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون) بھی پڑھتے اور فرماتے ہیں اس سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ لیکن یہ حدیث ان لفظوں اور اس سند سے بیحد غریب ہے اور ستر سے اوپر اوپر فرقوں کی حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے ، جسے ہم نے اور جگہ بیان کر دیا ہے فالحمدللہ