يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿90﴾
‏ [جالندھری]‏ اے ایمان والو! شراب اور جُوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سیہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
پانسہ بازی ، جوا اور شراب 
ان آیتوں میں اللہ تعالٰی بعض چیزوں سے روکتا ہے ۔ شراب کی ممانعت فرمائی ، پھر جوئے کی روک کی ۔ امیر المونین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شطرنج بھی جوئے میں داخل ہے (ابن ابی حاتم ) عطا مجاہد اور طاؤس سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ جوئے کی ہر چیز میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو ۔ جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسلام نے غارت کیا ۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیجتے تھے، پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے ۔ حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیلا کرتے تھے، یہ بھی جوا ہے صحیح مسلم شریف میں ہے پانسوں سے کھیلنے والا گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت میں آلودہ کرنے والا ہے ۔ سنن میں ہے کہ وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے ۔ واللہ اعلم ، مسند میں ہے پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے ۔ حضرت علی سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ امام مالک امام ابو حنیفہ امام احمد تو کھلم کھلا اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی بھی اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ انصاب ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح کرتے تھے ازلام ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے ۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں ۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ ۔ اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے ۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے ۔ 
حرمت شراب کی مزید وضاحت 
اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے شریف میں آئے تو لوگ جواری شرابی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا اور آیت (یسئلونک عن الخمیر و المیسر) الخ، نازل ہوئی ۔ اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں۔ چنانچہ شراب پیتے رہے ۔ ایک دن ایک صحابی اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھرے ہوئے تو قرأت خط ملط ہو گئی اس پر آیت (یا ایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ و انتم سکاری) الخ، نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیت (انما الخمر والمیسر) الخ ، نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ بول اٹھے انتھینا ربنا اے اللہ ہم اب باز رہے ، ہم رک گئے، پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے سے پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے، مسند احمد میں ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا اللہ ہمارے سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورہ بقرہ کی آیت (فیھما اثم کبیر) نازل ہوئی ۔ حضرت عمر فاروق کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ نے فرمایا اے اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما! پس سورہ نساء کی آیت (وانتم سکاری) نازل ہوئی اور مؤذن جب حی علی الصلوۃ کہتا تو ساتھ ہی کہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے قریب بھی نہ آئیں۔ حضرت عمر کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ نے یہی فرمایا کہ اے اللہ اس بارے میں صفائی سے بیان فرما ۔ پس سورہ مائدہ کی آیت اتری آپ کو بلوایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی جب آیت (فھل انتم منتھون) تک سنا تو فرمانے لگے انتھینا انتھینا ہم رک گئے ہم رک گۓ ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے منبر نبوی پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی، انگور، شہد، کجھور، گہیوں اور جو ۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آ جائے خمر ہے ۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور حرام ہے صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے موقع پر مدینے شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی ، ابوداؤد طیالسی میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں شراب کے بارے میں تین آیتیں اتریں ۔ اول تو آیت (یسلونک عن الخمر) والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی اس پر بعض صحابہ نے فرمایا رسول اللہ ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئے جیسے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا، آپ خاموش ہو گئے پھر آیت (وانتم سکاری) والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی ۔ لیکن صحابہ نے فرمایا دیا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے ۔ آپ پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ اب شراب حرام ہو گئی ۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضور کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے یا قبیلہ دوس میں سے ۔ فتح مکہ والے دن وہ آپ سے ملا اور ایک مشک شراب کی آپ کو تحفتاً دینے لگا آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی نے اسے حرام کر دیا ہے ۔ اب اس شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال ، آپ نے فرمایا کیا کہا؟ اس نے جواب دیا کہ بیچنے کو کہہ رہا ہوں آپ نے فرمایا جس اللہ نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے۔ اس نے اسی وقت کہا جاؤ اسے لے جاؤ اور بطحا کے میدان میں بہا آؤ ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت تمیم دارمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ دینے کیلئے ایک مشک شراب کی لائے، آپ اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا یہ تو تمہارے جانے کے بعد حرام ہو گئی ہے کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کر لوں گا ، یہ سن کر آپ نے فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کیا ، اللہ تعالٰی نے شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کر دیا ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ اس میں ہے کہ ہر سال حضرت دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے تھے، اس کے آخر میں حضور کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام ، ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ حضرت کیسان رضی اللہ تعالٰی عنہ شراب کے تاجر تھے جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے لائے تھے حضور سے ذکر کیا آپ نے فرمایا اب تو حرام ہو گئی پوچھا پھر میں اسے بیچ ڈالوں؟ آپ نے فرمایا یہ بھی حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے ۔ چنانچہ حضرت کیسان نے وہ ساری شراب بہا دی، مسند احمد میں ہے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ، میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح حضرت ابی بن کعب ، حضرت سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے تھے قریب تھا کہ نشے کا پارہ بڑھ جائے، اتنے میں کسی صحابی نے آ کر خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہو گئی ؟ انہں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا ۔ یہ شراب کھجو کی تھی اور عامتاً اسی کی شراب بنا کرتی تھی ، یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے اور روایت میں ہے کہ شراب خوری کی یہ مجلس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر تھی ، نا گاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے؟ میں نے جا کر سنا منادی ندا دے رہا ہے کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے ، میں نے آ کر خبر دی تو حضرت ابو طلحہ نے فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے سب بہادو میں نے بہادی اور میں نے دیکھا کہ مدینے کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے ، بعض اصحاب نے کہا ان کا کیا حال ہو گا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کر دیئے گئے ؟ اس پر اس کے بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں ، ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے ناموں میں حضرت ابو دجانہ اور حضرت معاذ بن جبل کا نام بھی ہے اور یہ بھی ہے کہ ندا سنتے ہی ہم نے شراب بہا دی، مٹکے اور پیپے توڑ ڈالے ۔ کسی نے وضو کر لیا، کسی نے غسل کر لیا اور حضرت ام سلیم کے ہاں سے خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے تو دیکھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھ رہے تھے ، ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور اس سے پہلے جو لوگ فوت ہو گئے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ پس اس کے بعد آیت اتری ، کسی نے حضرت قتادہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ فرمایا ہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں؟ مسند احمد میں ہے حضور فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالٰی نے شراب اور پانسے اور بربط کا باجا حرام کر دیا ہے ، شراب سے بچو غبیرا نام کی شراب عام ہے مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔ میں نے آپ سے سنا ہے کہ شراب جوا پانسے اور غبیرا سب حرام ہیں اور ہر نشے والی چیز حرام ہے ، مسند احمد میں ہے شراب کے بارے میں دس لعنتیں ہیں خود شراب پر، اس کے پینے والے پر ، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر ، اس کے خریدنے والے پر اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے بنانے والے پر ، اس کے اٹھانے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس یہ اٹھا کر لے جایا جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر (ابو داؤد ، ابن ماجہ ) مسند میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باڑے کی طرف نکلے میں آپ کے ساتھ تھا ۔ آپ کے دائیں جانب چل رہا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق آئے میں ہٹ گیا اور آپ کے داہنے حضرت صدیق چلنے لگے تھوڑی دیر میں حضرت عمر آ گئے میں ہٹ گیا آپ حضور کے بائیں طرف ہو گئے جب آپ باڑے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا چھری لاؤ جب میں لایا تو آپ نے حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں پھر فرمایا شراب پر، اس کے پینے والے پر، پلانے والے پر ، بیچنے والے پر، خریدار پر، اٹھانے والے پر ، اٹھوانے والے پر، بنانے والے پر ، بنوانے والے پر ، قیمت لینے والے پر سب پر لعنت ہے ، مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو ، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک مشک بھی نہ چھوڑی ۔ بہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیجتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے حضرت ابن عباس سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے ، اے امت محمد اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا ، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے ، پھر حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا سنو میں حضور کے ساتھ مسجد میں تھا ۔ آپ گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے ۔ لوگوں نے لانی شروع کی، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو ۔ جب سب جمع ہو جائے مجھے خبر کو، جب جمع ہو گئی اور آپ سے کہا گیا تو آپ اٹھے میں آپ کے داہنے جانب تھا آپ مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے حضرت ابوبکر صدیق جب آئے تو آپ نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کر دیا اور میری جگہ حضرت ابوبکر نے لے لی ، پھر حضرت عمر سے ملاقت ہوئی تو آپ نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ شراب ہے، فرمایا سنو اس پر اس کے بنانے والے پر ، بنوانے والے پر ، پینے والے پر ، پلانے والے پر ، اٹھانے والے پر ، اٹھوانے والے پر ، بیچنے والے پر ، خریدنے والے پر ، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا اسے تیز کر لو پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور مشکوں اور مٹکو کو رہنے دیجئے اور کام آئیں گی فرمایا ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غضہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب اراض ہے ۔ حضرت عمر نے فرمایا حضور آپ خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں فرمایا نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا ۔ بیہقی کی حدیث میں ہے کہ شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں ۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں ۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے، ہم افضل ہیں۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں ۔ ایک انصاری نے اونٹ کے جبڑا لے کر حضرت سعد کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری ۔ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے ، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بےحرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری ۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہو گا ؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے جواب میں اگلی آیت اتری ۔ ابن جریر میں ہے حضرت ابو بریدہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھاناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ سلام کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی ، بعض وہ بھی تھے، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آ گئے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی ۔ بزار میں یہ ذاتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت (یس علی الذین امنوا) الخ، نازل ہوئی، ابو یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو گئی وہ واپس مڑ گیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آ گیا اور حضور سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے کہا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں۔ فرمایا اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں ، کہا پھر اجازت دیجئے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے آپ نے فرمایا یہ بھی ٹیک نہیں کہ حضور اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے فرمایا دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے یتیموں کی مدد کریں گے پھر مدینہ میں منا دی ہو گئی ایک شخص نے کہا حضور شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے ۔ یہ حدیث غریب ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے آپ نے فرمایا جاؤ اس یہا دو عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں فرمایا نہیں ۔ یہ حدیث مسلم ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے فرمایا جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے ۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا ۔ حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالٰی اسے طینتہ الخیال پلائے گا ۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ فرمایا جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ (مسند احمد ) ابوداؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں نا قبول ہیں ۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالٰی اسے ضرور طینتہ الخیال پلائے گا پوچھا گیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالٰی پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے ۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بےتوبہ مر گیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف اللہ تعالٰی قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا، ماں باپ کا نافرمان، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا ، مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے گا ۔ مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اولاد بھی ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعلای عنہ فرماتے ہیں شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جر ہے ۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا ۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا ، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی ۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے ۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لۓ بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا ، سارا پی گیا ۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ، خوب پیا، جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا ۔ پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہو تے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے (بیہقی ) امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے واللہ اعلم ، اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زانی زنا کے وقت، چور چوری کے وقت، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر اس میں کوئی حرج نہیں اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پرھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت (ماکان اللہ لیضیع ایمانکم) الخ، نازل ہوئی یعنی ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی۔ مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالٰی کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالٰی دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو حضور نے فرمایا مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے ۔ مسند احمد میں ہے پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے ۔