يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿94﴾
‏ [جالندھری]‏ مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو خدا تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تاکہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دُکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
احرام میں شکار کے مسأال کی تفصیلات
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں انسان اپنے ہاتھ سے پکڑ لے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا ۔ یعنی انہیں منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہو سکتا ہو خواہ سختی سے ۔ چنانچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آ پڑے کہ صحابہ کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہو گئی تاکہ پوری آزمائش ہو جائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں تو ہاتھ سے پکڑ سکتے یہیں اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کر سکتے ہیں ۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ فرمانبردار اور نافرمان کا امتحان ہو جائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہو جائیں، چنانچہ فرمان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔ اب جو شخص اس حکم کے آنے کے بعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا، پھر فرمایا ایماندار و حالت احرام میں شکار نہ کھیلو ۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں کیلئے ہے ، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں ان کا شکار کھیلنا امام شافعی کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرام ہے ، ہاں اس عام حکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں وہ حرام میں قتل کر دیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی ، کوا چیل بچھو چوہا اور کانٹے والا کالا کتا اور روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔ اس روایت کو سن کر حضرت ایوب اپنے استاد حضرت نافع سے پوچھتے ہیں کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کر دیا جائے اس میں کسی کو اختلاف نہیں بعض علماء نے جیسے امام احمد امام مالک وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیر وغیرہ ۔ اس لئے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں ۔ حضرت زید بن اسلم اور حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابولہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے ، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا ۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کو یا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اسے بدلہ دینا پڑے گا ۔ اسی طرح ان پانچوں قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔ امام شافعی فرماتے ہیں ہر وہ جانور جو کھایا نہیں جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھایا نہیں جاتا ۔ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کر سکتا ہے اس لئے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا ۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں ۔ آپ کے شاگرد زفر کہتے ہیں یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا۔ بعض احادیث میں غریب ابقع کا لفظ آیا ہے یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے ۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے ۔ امام ملک فرماتے ہیں کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذاء دے مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے ۔ حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ محرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا سانپ ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکر مارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ ۔ (ابو داؤد وغیرہ) پھر فرماتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے۔ حضرت طاؤس کا فرمان ہے کہ خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں ۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے ۔ مجاہد بن جیبر سے مروی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں رہی ۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہو گیا ۔ یہ قول بھی غریب ہے ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں امام زہری فرماتے ہیں قرآن سے تو قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا ۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی ۔ کیونکہ اس کے بعد آیت (لیذوق و بال امرہ) فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لۓ بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہو جائے وہ قابل ملامت نہیں ۔ پھر فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں فجزاوہ ہے ان دونوں قرأت وں میں مالک شافعی احمد اور جمہور کی دلیل ہے کہ جب شکار چوپالیوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہو گا ۔ امام ابو حنیفہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کر دے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خرید لے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا فیصلہ ہمارے لئے زیادہ قابل عمل ہے انہوں نے شترمرغ کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کی سندوں سمیت احکام کی کتابوں میں موجود ہیں جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے (بیہقی) پھر فرمایا کہ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کر دیں کہ کیا قیمت ہے یا کونسا جانور بدلے میں دیا جائے ۔ فقہا نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ تو امام مالک وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کر کے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں بن سکتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی حضرات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کر دیا ہے اب آپ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے؟ آپ نے حضرت ابی بن کعب کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فرمائیے کیا حکم ہے؟ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ خلیفہ رسول ہیں اور آپ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس میں تیرا کیا بگڑا؟ یہ تو اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کر دیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا ۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کر لیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے ۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور صدیق کے درمیان انقطاع ہے ۔ یہاں یہی چاہیے تھا حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب دیکھا کہ اعرابی جاہل ہے اور جہل کی دوا تعلیم ہے تو آپ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں رہتی ۔ چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت قبیصہ بن جابر کہتے ہیں ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے ۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گر گیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہو گیا ۔ ہمیں یہ کام بڑا برا معلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا اس وقت جناب فاروق کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھ سے فرمایا کہ تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی میری نیت نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے ۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا ۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر المؤمنین کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا میرے خیال سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیرا جرم معاف ہو جائے ۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ حضرت عمر نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں ۔ حضرت عمر کو بھی میرا یہ فتوی دینا معلوم ہو گیا اچانک آپ کوڑہ لئے ہوئے آ گئے۔ اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا تونے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے ۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المومنین اگر آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں کروں گا ۔ آپ نرم پڑ گئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے ۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کر دیتی ہے ۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچارہ ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کر لیا پھر حضرت عمر کے پاس گئے آپ نے فرمایا جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے میں جا کر حضرت عبدالرحمن کو اور حضرت سعد کو بلا لایا ۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں ۔ حضرت طارق فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مر گیا حضرت عمر سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کر لیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے۔ جیسے کہ امام شافعی اور امام احمد کا مذہب ہے ۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ کے فیصلے کافی ہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے یعنی وہیں ذبح ہو اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ او اختیار کے ثابت کرنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک امام ابوحنیفہ امام ابویوسف امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول اور امام احمد کا مشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں ، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں ، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ابوحنیفہ ان کے ساتھی ، حماد اور ابراہیم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی فرماتے ہیں شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے ، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد کا قول یہی ہے ، امام احمد فرماتے ہیں گہیو ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہو جائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے ، بعض کہتے ہیں جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جیسے کہ اس شخص کے لئے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے ، شارع علیہ السلام نے حضرت کعب بن عجرہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کر دیں یا تین دن کے روزے رکھیں ، فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے ، امام شافعی کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے ، عطاء کا قول بھی یہی ہے ، مجاہد فرماتے ہیں جہاں شکار کیا ہے وہیں کھلوا دے ، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں، امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے ۔ سلف کی اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں ، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے ، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہو گا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہو گا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکے میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خر وغیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں ۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خرو غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے، ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے ، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے ۔ سدی فرماتے ہیں یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے ، امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے پھر فرمان ہے کہ یہ کفارہ ہم نے اس لئے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے ، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے ، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالٰی اس سے انتقام لے گا۔ گو اس میں حد نہیں امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے ۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہو گا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہو جائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اسے کہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے ، ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلی دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہو گا دوبارہ کے شکار پر خود اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہو گا لیکن امام ابن جریر کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آ گئی اور اسے جلا کر بھسم کر دیا یہی معنی ہیں اللہ کے فرمان آیت (فینتقم اللہ منہ) کے ۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں سکتا اس کا عذاب جس پر آ جائے کوئی نہیں جو اسے ٹال دے ، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے ، وہ اپنے نافرمانوں سے زبر دست انتقام لیتا ہے ۔