أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿96﴾
‏ [جالندھری]‏ تمہارے لئے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کو کھانا حلال کر دیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے اور جنگل (کی چیزوں) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے۔ اور خدا سے جس کے پاس تم (سب) جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
طعام اور شکار میں فرق اور حلال کی مزید تشریحات
دریائی شکار سے مراد تازہ پکڑے ہوئے جانور اور طعام سے مراد ہے ان کا جو گوشت سکھا کر نمکین بطور توشے کے ساتھ رکھا جاتا ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ پانی میں سے جو زندہ پکڑا جائے وہ صید یعنی شکار ہے اور جو مردہ ہو کر باہر نکل آئے وہ طعام یعنی کھانا ہے حضرت ابوبکر صدیق حضرت زید بن ثابت حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین ، حضرت عکرمہ ، حضرت ابو سلمہ ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت حسن بصری رحمم اللہ سے بھی یہی مروی ہے ، خلیفہ بلا فصل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ پانی میں جتنے بھی جانور ہیں وہ سب طعام ہیں ۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ ) آپ نے ایک خطبے میں اس آیت کے اگلے حصے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ جو چیز سمندر پھینک دے وہ طعام ہے (ابن جریر) ابن عباس سے بھی یہی منقول ہے ایک روایت میں ہے کہ جو مردہ جانور پانی نکال دے ۔ سعید بن مسیب سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ جس زندہ آبی جانور کو پانی کنارے پر ڈال دے یا پانی اس سے ہٹ جائے یا وہ باہر مردہ ملے (ابن ابی حاتم ) ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابوہیرہ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ سمندر نے بہت سی مردہ مچھلیاں کنارے پر پھینک دی ہیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ ہم انہیں کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ ابن عمر نے جواب دیا نہیں نہ کھاؤ، جب واپس آئے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عالی عنہ نے قرآن کریم کھول کر تلاوت کی اور سورہ مائدہ کی اس آیت پر نظر پڑی تو ایک آدمی کو دوڑایا اور کہا جاؤ کہدو کہ وہ اسے کھا لیں یہی بحری طعام ہے ، امام ابن جریر کے نزدیک بھی قول مختار یہی ہے کہ مراد طعام سے وہ آبی جانور ہیں جو پانی میں ہی مر جائیں ، فرماتے ہیں اس بارے میں ایک روایت مروی ہے گو بعض نے اسے موقوف روایت کہا ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے آپ نے آیت (احل لکم صید البحر و طعامہ متاعا لکم) پڑھ کر فرمایا اس کا طعام وہ ہے جسے وہ پھینک دے اور وہ مرا ہوا ہو ۔ بعض لوگوں نے اسے بقول ابو ہریرہ موقوف روایت کیا ہے ، پھر فرماتا ہے یہ منفعت ہے تمہارے لئے اور راہ رو مسافروں کے لئے ، یعنی جو سمندر کے کنارے رہتے ہوں اور جو وہاں وارد ہوئے ہوں، پس کنارے رہنے والے تو تازہ شکار خود کھیلتے ہیں پانی جسے دھکے دے کر باہر پھینک دے اور مر جائے اسے کھا لیتے ہیں اور نمکین ہو کر دور دراز والوں کو سوکھا ہو اپہنچتا ہے۔ الغرض جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ پانی کا جانور خواہ مردہ ہی ہو حلال ہے اس کی دلیل علاوہ اس آیت کے امام مالک کی روایت کردہ وہ حدیث بھی ہے کہ حضور نے سمندر کے کنارے پر ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا جس کا سردار حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مقرر کیا ، یہ لوگ کوئی تین سو تھے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں میں بھی ان میں سے تھا ہم ابھی راستے میں ہی تھے جو ہمارے توشے تھے ختم ہو گئے ، امیر لشکر کو جب یہ علم ہوا تو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو میرے پاس لاؤ چنانچہ سب جمع کر لیا اب حصہ رسدی کے طور پر ایک مقررہ مقدار ہر ایک کو بانٹ دیتے تھے یہاں تک کہ آخر میں ہمیں ہر دن ایک ایک کھجور ملنے لگی آخر میں یہ بھی ختم ہو گئی۔ اب سمندر کے کنارے پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ کنارے پر ایک بڑی مچھلی ایک ٹیلے کی طرح پڑی ہوئی ہے ، سارے لشکر نے اٹھارہ راتوں تک اسے کھایا ، وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اس کے نیچے سے ایک شتر سوار نکل گیا اور اس کا سر اس پسلی کی ہڈی تک نہ پہنچا ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ اس کا نام عنبر تھا ایک روایت میں ہے کہ یہ مردہ ملی تھی اور صحابہ نے آپس میں کہا تھا کہ ہم رسول اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور اس وقت سخت دقت اور تکلیف میں ہیں اسے کھا لو ہم تین سو آدمی ایک مہینے تک وہیں رہے اور اسی کو کھاتے رہے یہاں تک کہ ہم موٹے تازے اور تیار ہو گئے اس کی آنکھ کے سوراخ میں سے ہم چربی ہاتھوں میں بھر بھر کر نکالتے تھے تیرہ شخص اس کی آنکھ کی گہرائی میں بیٹھ گئے تھے، اس کی پسلی کی ہڈی کے درمیان سے سانڈنی سوار گزر جاتا تھا ، ہم نے اس کے گوشت اور چربی سے مٹکے بھر لئے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کی طرف سے روزی تھی جو اللہ جل مجدہ نے تمہیں دی کیا اس کا گوشت اب بھی تمہارے پاس ہے ؟ اگر ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ ، ہمارے پاس تو تھا ہی ہم نے حضور کی خدمت میں پیش کیا اور خود آپ نے بھی کھایا ، مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اس واقعہ میں خود پیغمبر اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھھے اس وجہ سے بعض محدثین کہتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دو واقع ہوں اور بعض کہتے ہیں واقعہ تو ایک ہی ہے ، شروع میں اللہ کے نبی بھی ان کے ساتھ تھے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہم سمندر کے سفر کو جاتے ہیں ہمارے ساتھ پانی بہت کم ہوتا ہے اگر اسی سے وضو کرتے ہیں تو پیاسے رہ جائیں تو کیا ہمیں سمندر کے پانی سے وضو کر لینے کی اجازت ہے؟ حضور نے فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ، امام شافعی امام احمد اور سنن اربعہ والوں نے اسے روایت کیا ہے امام بخاری امام ترمذی امام ابن خزیمہ امام ابن حبان وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحابہ کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے ، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے حضرت ابو ہیریرہ فرماتے ہیں ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں تھے اتفاق سے ٹڈیوں کا دل کا دل آ پہنچا ہم نے انہیں مارنا اور پکڑنا شروع کیا لیکن پھر خیال آیا کہ ہم تو احرام کی حالت میں ہیں انہیں کیا کریں گے؟ چنانچہ ہم نے جا کر حضور علیہ السلام سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ دریائی جانوروں کے شکار میں کوئی حرج نہیں ، اس کا ایک راوی ابو المہزم ضعیف ہے ، واللہ اعلم ابن ماجہ میں ہے کہ جب ٹڈیاں نکل آتیں اور نقصان پہنچاتیں تو رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم اللہ تعالٰی سے دعا کرتے کہ اے اللہ ان سب کو خاہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہلاک کر ان کے انڈے تباہ کر ان کا سلسلہ کاٹ دے اور ہماری معاش سے ان کے منہ بند کر دیے یا اللہ ہمیں روزیاں دے یقیناً تو دعاؤں کا سننے والا ہے ، حضرت خالد نے کہا یا رسول اللہ آپ ان کے سلسلہ کے کٹ جانے کی دعا کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی ایک قسم کی مخلوق ہے آپ نے فرمایا ان کی پیدائش کی اصل مچھلی سے ہے ، حضرت زیاد کا قول ہے کہ جس نے انہیں مچھلی سے ظاہر ہوتے دیکھا تھا خود اسی نے مجھ سے بیان کیا ہے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے حرم میں ٹڈی کے شکار سے بھی منع کیا ہے جن فقہا کرام کا یہ مذہب ہے کہ سمندر میں جو کچھ ہے سب حلال ہے ان کا استدلال اسی آیت سے ہے وہ کسی آبی جانور کو حرام نہیں کہتے حضرت ابوبکر صدیق کا وہ قول بیان ہو چکا ہے کہ طعام سے مراد پانی میں رہنے والی ہر ایک چیز ہے ، بعض حضرات نے صرف مینڈک کو اس حکم سے الگ کر لیا ہے اور مینڈک کے سوا پانی کے تمام جانوروں کو وہ مباح کہتے ہیں کیونکہ مسند وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی آواز اللہ کی تسبیح ہے ، بعض اور کہتے ہیں سمندر کے شکار سے مچھلی کھائی جائے گی اور مینڈک نہیں کھایا جائے گا اور باقی کی چیزوں میں اختلاف ہے کچھ تو کہتے ہیں کہ باقی سب حلال ہے اور کچھ کہتے ہیں باقی سب نہ کھایا جائے ، ایک جماعت کا خیال ہے کہ خشکی کے جو جانور حلال ہیں ان جیسے جو جانور پانی کے ہوں وہ بھی حلال ہیں اور خشکی کے جو جانور حرام ہیں ان کی مشابہت کے جو جانور تری کے ہوں وہ بھی حرام، یہ سب وجوہ مذہب شافعی میں ہیں حنفی مذہب یہ ہے کہ سمندر میں مر جائے اس کا کھانا حلال نہیں جیسے کہ خشکی میں از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں کیونکہ قرآن نے اپنی موت آپ مرے ہوئے جانور کو آیت (حرمت علیکم المیتتہ) میں حرام کر ذیا ہے اور یہ عام ہے ، ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جو تم شکار کر لو اور وہ زندہ ہو پھر مر جائے تو اسے کھا لو اور جسے پانی آپ ہی پھینک دے اور وہ مرا ہوا الٹا پڑا ہوا ہو اسے نہ کھاؤ ، لیکن یہ حدیث مسند کی رو سے منکر ہے صحیح نہیں ، مالکیوں شافعیوں اور حنبلیوں کی دلیل ایک تو ہی عنبر والی حدیث ہے جو پہلے گزر چکی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال کئے گئے ہیں دو مردے مچھلی اور ٹڈی اور دو خون کلیجی اور تلی، یہ حدیث مسند احمد ابن ماجہ دار قطنی اور بیہقی میں بھی ہے اور اس کے سواہد بھی ہیں اور یہی روایت موقوفاً بھی مروی ہے ، واللہ اعلم، پھر فرماتا ہے کہ تم پر احرام کی حالت میں شکار کھیلنا حرام ہے، پس اگر کسی احرام والے نے شکار کر لیا اور اگر قصداً کیا ہے تو اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا اور گنہگار بھی ہو گا اور اگر خطا اور غلطی سے شکار کر لیا ہے تو اسے کفارہ دینا پڑے گا اور اس کا کھانا اس پر حرام ہے خواہ وہ احرام والے ہوں یا نہ ہوں ۔ عطا قاسم سالم ابو یوسف محمد بن حسن وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں، پھر اگر اسے کھا لیا تو عطا وغیرہ کا قول ہے کہ اس پر دو کفارے لازم ہیں لیکن امام مالک وغیرہ فرماتے ہیں کہ کھانے میں کوئی کفارہ نہیں ، جمہور بھی امام صاحب کے ساتھ ہیں ، ابو عمر نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ جس طرح زانی کے کئی زنا پر حد ایک ہی ہوتی ہے ، حضرت ابو حنیفہ کا قول ہے کہ شکار کر کے کھانے والے کو اس کی قیمت بھی دینی پڑے گی، ابو ثور کہتے ہیں کہ محرم نے جب کوئی شکار مارا تو اس پر جزا ہے ، ہاں اس شکار کا کھانا اس کیلئے حلال ہے لیکن میں اسے اچھا نہیں سمجھتا، کیونکہ فرمان رسول ہے کہ خشکی کے شکار کو کھانا تمہارے لئے حلال ہے جب تک کہ تم آپ شکار نہ کرو اور جب تک کہ خاص تمہارے لئے شکار نہ کیا جائے، اس حدیث کا تفصیلی بیان آگے آ رہا ہے، ان کا یہ قول غریب ہے ، ہاں شکاری کے سوا اور لوگ بھی اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض تو منع کرتے ہیں جیسے پہلے گزر چکا اور بعض جائز بتاتے ہیں ان کی دلدل وہی حدیث ہے جو اوپر ابو ثور کے قول کے بیان میں گزری، واللہ اعلم، اگر کسی ایسے شخص نے شکار کیا جو احرام باندھے ہوئے نہیں پھر اس نے کسی احرام والے کو وہ جانور ہدیئے میں دیا تو بعض تو کہتے ہیں کہ یہ مطلقاً حلال ہے خواہ اسی کی نیت سے شکار کیا ہو خواہ اس کے لئے شکار نہ کیا ہو، حضرت عمر حضرت ابوہریرہ حضرت زبیر حضرت کعب احبار حضرت مجاہد ، حضرت عطا ، حضرت سعید بن جیر اور کوفیوں کا یہی خیال ہے ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ غیر محرم کے شکار کو محرم کھا سکتا ہے؟ تو آپ نے جواز کا فتوی دیا ، جب حضرت عمر کو یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا اگر تو اس کے خلاف فتوی دیتا تو میں تیری سزا کرتا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی محرم کو اس کا کھانا درست نہیں ، ان کی دلیل اس آیت کے کا عموم ہے حضرت ابن عباس اور ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے اور بھی صحابہ تابعین اور ائمہ دین اس طرف گئے ہیں۔ تیسری جماعت نے اس کی تفصیل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی غیر محرم نے کسی محرم کے ارادے سے شکار کیا ہے تو اس محرم کو اس کا کھانا جائز نہیں ، ورنہ جائز ہے ان کی دلیل حضرت صعب بن جثامہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوا کے میدان میں یا ودان کے میدان میں ایک گور خر شکار کردہ بطور ہدئیے کے دیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا جس سے صحابی رنجیدہ ہوئے، آثار رنج ان کے چہرے پر دیکھ کر رحمتہ للعالمین نے فرمایا اور کچھ خیال نہ کرو ہم نے بوجہ احرام میں ہونے کے ہی اسے واپس کیا ہے، یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے، تو یہ لوٹانا آپ کا اسی وجہ سے تھا کہ آپ نے سمجھ لیا تھا کہ اس نے یہ شکار خاص میرے لئے ہی کیا ہے اور جب شکار محرم کیلئے ہی نہ ہو تو پھر اسے قبول کرنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت ابو قتادہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے بھی جبکہ وہ احرام کی حالت میں نہ تھے ایک گور خر شکار کیا صحابہ جو احرام میں تھے انہوں نے اس کے کھانے میں توقف کیا اور حضور سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی نے اسے اشارہ کیا تھا؟ یا اسے کوئی مدد دی تھی ؟ سب نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا پھر کھا لو اور خود آپ نے بھی کھایا یہ واقعہ بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنگلی شکار کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اس حالت میں بھی کہ تم احرام میں ہو جب تک کہ خود تم نے شکار نہ کیا ہو اور جب تک کہ خود تمہارے لئے شکار نہ کیا گیا ہو ، ابو داؤد ترمذی نسائی میں بھی یہ حدیث موجود ہے ، امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ اس کے راوی مطلب کا جابر سے سننا ثابت نہیں ، ربیعہ فرماتے ہی کہ عرج میں جناب خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے، آپ احرام کی حالت میں تھے جاڑوں کے دن تھے ایک چادر سے آپ منہ ڈھکے ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم کھا لو انہوں نے کہا اور آپ کیوں نہیں کھاتے؟ فرمایا مجھ میں تم میں فرق ہے یہ شکار میرے ہی لئے کیا گیا ہے اس لئے میں نہیں کھاؤں گا تمہارے لئے نہیں گیا اس لئے تم کھا سکتے ہو ۔