يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿105﴾
‏ [جالندھری]‏ اے ایمان والوں! اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تم سب کو خدا کی طرف لوٹ جانا ہے اس وقت وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے جو (دنیا) (میں) کئے تھے آگاہ کریگا اور ان کا بدلہ دے گا ‏
تفسیر ابن كثیر
اپنی اصلاح آپ کرو
اللہ تعالٰی اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کریں اور اپنی طاقت کے مطابق نیکیوں میں مشغول رہیں ، جب وہ خود ٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے تو برے لوگوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا خواہ وہ رشتے دار اور قریبی ہوں خواہ اجنبی اور دور کے ہوں ۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالٰی کے احکامات پر عامل ہو جائے برائیوں سے بچ جائے تو اس پر گنہگار لوگوں کے گناہ کا کوئی بوجھ بار نہیں۔ مقاتل سے مروی ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ ملتا ہے بروں کو سزا اچھوں کو جزا، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اچھی بات کا حکم اور بری باتوں سے منع بھی نہ کرے، کیونکہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو سنو! میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگ جب بری باتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نہیں روکیں گے تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی کا کوئی عام عذاب آ جائے ، امیر المومنین کا یہ فرمان بھی ہے کہ جھوٹ سے بچو جھوٹ ایمان کی ضد (سننن اربعہ) حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم بھلائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرتے رہو یہاں تک کہ بخیلی کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع اور دنیا کی پسندیدگی اور ہر شخص کا اپنی رائے پر پھولنا عام نہ ہو جائے اس وقت تم صرف اپنی اصلاح میں مشغول ہو جاؤ اور عام لوگوں کو چھوڑ دو ، یاد رکھو تمہارے پیچھے صبر کے دن آ رہے ہیں اس وقت دین اسلام پر جما رہنے والا ایسا ہو گا جیسے کوئی انگارے کو مٹھی میں لئے ہوئے ہو اس وقت عمل کرنے والے کو مثل پچاس شخصوں کے عمل کا اجر ملے گا جو بھی اچھے اعمال کرے گا ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ مثل پچاس شخصوں کے ان میں سے یا ہم میں سے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم میں سے (ترمذی) حضرت ابن مسعود سے بھی جب اس آیت کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ وقت نہیں آج تو تمہاری باتیں مان لی جاتی ہیں لیکن ہاں ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ نیک باتیں کہنے اور بھلائی کا حکم کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی اور اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اس وقت تم صرف اپنے نفس کی اصلاح میں لگ جانا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے دو شخصوں میں کچھ جھگڑا ہو گیا اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہو گئے تو ایک نے کہا میں اٹھتا ہوں اور انہیں نیکی کا حکم کرتا ہوں اور برائی سے روکتا ہوں تو دوسرے نے کہا مجھے کیا پڑی؟ تو اپنی اصلاح میں لگا رہ، پھر یہی آیت تلاوت کی اسے سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا چپ رہ اس آیت کے عمل کا یہ وقت نہیں قرآن میں کئی طرح کی آیتیں ہیں بعض تو وہ ہیں جن کے مضامین گزر چکے بعض وہ ہیں جن کے واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہو گئے ، بعض کے واقعات حضور کے بعد ہوئے بعض قیامت کے دن ہوں گے مثلاً جنت دوزخ وغیرہ، سنو جب تک تمہارے دل نہ پھٹیں تمہارا مقصود ایک ہی ہو تم میں پھوٹ نہ پڑی ہو تم میں لڑائی دنگے شروع نہ ہوئے ہوں تم اچھی باتوں کی ہدایت کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ۔ ہاں جب دلوں میں جدائی ہو جائے ۔ آپ میں اختلاف پڑ جائیں لڑائیاں شروع ہو جائیں اس وقت صرف اپنے تیئس پابند شریعت رکھنا کافی ہے اور وہی وقت ہے اس آیت کے عمل کا (ابن جریر) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا گیا کہ ان دنوں تو آپ اگر اپنی زبان روک لیں تو اچھا ہو آپ کو کیا پڑی کوئی کچھ ہی کرے آپ نہ کسی کو روکیں نہ کچھ کہیں دیکھئے قرآن میں بھی تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے تم اپنے تئیں سنبھا لو گمراہوں کی گمراہی کا وبال تم پر نہیں جبکہ تم خود راہ راست پر ہو ۔ تو حضرت ابن عمر نے کہا یہ حکم میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے نہیں اس لئے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے خبردار ہر موجود شخص غیر موجود لوگوں کو پہنچا دے ۔ پس ہم موجود تھے اور تم غیر موجود تھے ۔ یہ آیت تو ان لوگوں کے حق میں ہے جو بعد میں آئیں گے وہ لوگوں کو نیک باتیں کہیں گے لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی (ابن جریر) حضرت ابن عمر کی مجلس میں ایک صاحب آئے بڑے غصیل اور تیز زبان، کہنے لگے سنیئے جناب چھ شخص ہیں سب قرآن پڑھے ہوئے جاننے بوجھنے والے مجہتد سمجھدار لیکن ہر ایک دوسرے کو مشرک بتلاتا ہے ، اس نے کہا میں تم سے نہیں پوچھتا میں تو حضرت ابن عمر سے سوال کرتا ہوں اور پھر وہی بات دوہرا دی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا شاید تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے یہ کہدوں کہ جا انہی قتل کر ڈال نہیں میں کہتا ہوں جا انہیں نصیحت کر انہیں برائی سے روک نہ مانیں تو اپنی راہ لگ ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت کی ، خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں حضرت ابن مازن مدینے میں آتے ہیں یہاں مسلمانوں کا ایک مجمع جمع تھا جس میں سے ایک شخص نے اسی آیت کی تلاوت کی تو اکثر لوگوں نے کہا اس کے عمل کا وقت ابھی تک نہیں آیا ۔ حضرت جبیر بن نفیر کہتے ہیں میں ایک مجلس میں تھا جس میں بہت سے صحابہ کرام موجود تھے یہی ذکر ہو رہا تھا کہ اچھی باتوں کا حکم کرنا چاہیے اور بری باتوں سے روکنا چاہیے میں اس مجلس میں سب سے چھوٹی عمر کا تھا لیکن جرات کر کے یہ آیت پڑھ دی اور کہا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر مجھے جواب دیا کہ اس کا صحیح مطلب تمہیں معلوم نہیں اور جو مطلب تم لے رہے ہو بالکل غلط ہے مجھے بڑا افسوس ہوا ، پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے جب اٹھنے کا وقت آیا تو مجھ سے فرمایا تم ابھی بچے ہو بےموقعہ آیت پڑھ دیتے ہو اصلی مطلب تک نہیں پہنچتے بہت ممکن ہے کہ تم اس آیت کے زمانے کو پالو یہ حکم اس وقت ہے جب بخیلی کا دور دورہ ہو خواہش پرستی عام ہو ہر شخص اپنی سمجھ پر نازاں ہو اس وقت انسان خود نیکیوں اور بھلائیوں میں مشغول رہے گمراہوں کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا اس پر بھی اللہ کا شکر ہے اگلے اور پچھلے مومنوں کے ساتھ منافق ضرور رہے جو ان کے اعمال سے بیزار ہی رہے، حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تم نے اچھی بات کی نصیحت کر دی اور بری بات سے روک دیا پھر بھی کسی نے برائیاں کیں نیکیاں چھوڑیں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ۔ حضرت حذیفہ بھی یہی فرمائے ہیں حضرت کعب فرماتے ہیں اس کا وقت وہ ہے جب مسجد دمشق کا کلیسا ڈھا دیا جائے اور تعصب بڑھ جائے ۔