قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلْ لِلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿12﴾
‏ [جالندھری]‏ (اُن سے) پوچھو کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے کس کا ہے کہہ دو خدا کا۔ اس نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ضرور جمع کرے گا۔ جن لوگوں نے اپنے تئیں نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لاتے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ہر چیز کا مالک اللہ ہے 
آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ، سب اللہ کا ہے ، اس نے اپنے نفس مقدس پر رحمت لکھ لی ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جب پیدا کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس اس کے عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے ، پھر اپنے پاک نفس کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا اور وہ دن یقینا آنے والا ہے شکی لوگ چاہے شک شبہ کریں لیکن وہ ساعت اٹل ہے ، حضور سے سوال ہوا کہ کیا اس دن پانی بھی ہو گا؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس دن پانی ہو گا، اولیاء اللہ ان ہوضوں پر آئیں گے جو انبیاء کی ہوں گی ۔ ان حوضوں کی نگہبانی کیلئے ایک ہزار فرشتے نور کی لکڑیاں لئے ہوئے مقرر ہوں گے جو کافروں کو وہاں سے ہٹا دیں گے ، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے لیکن ہے غریب، ترمذی شریف کی حدیث میں ہے ہر نبی کے لئے ہوض ہو گا مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ لوگ میرے حوض پر آئیں گے ، جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس دن کو نہیں مانتے وہ اپنی جانوں سے خود ہی دشمنی رکھتے ہیں اور اپنا نقصان آپ ہی کرتے ہیں، زمین و آسمان کی ساکن چیزیں یعنی کل مخلوق اللہ کی ہی پیدا کردہ ہے اور سب اس کے ماتحت ہے، سب کا مالک وہی ہے ، وہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کی حرکتیں جاننے والا ہے ، چھپا کھلا سب اس پر روشن ہے ۔ پھر اپنے نبی کو جنہیں توحید خالص کے ساتھ اور کامل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ۔ حکم دیتا ہے کہ آپ اعلان کر دیں کہ آسمان و زمین پیدا کرنے والے اللہ کے سوا میں کسی اور کو اپنا دوست و مددگار نہیں جانتا، وہ ساری مخلوق کا رازق ہے سب اس کے محتاج ہیں اور وہ سب سے بےنیاز ہے ، فرماتا ہے میں نے تمام انسانوں جنوں کو اپنی غلامی اور عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ، ایک قرأت میں والا یطعم بھی ہے یعنی وہ خود نہیں کھاتا، قبا کے رہنے والے ایک انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، ہم بھی آپ کے ساتھ گئے، جب حضور کھانا تناول فرما کر ہاتھ دھو چکے تو آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جو سب کو کھلاتا ہے اور خود نہیں کھاتا، اس کے بہت بڑے احسان ہم پر ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور کھانے پینے کو دیا اور تمام بھلائیاں عطا فرمائیں اللہ کا شکر ہے جسے ہم پورا ادا کر ہی نہیں سکتے اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں ، ہم اس کی نا شکری نہیں کرتے، نہ اس سے کسی وقت ہم بےنیاز ہو سکتے ہیں، الحمد للہ اللہ نے ہمیں کھانا کھلایا، پانی پلایا ، کپڑے پہنائے ، گمراہی سے نکال کر رہ راست کھائی ، اندھے پن سے ہٹا کر آنکھیں عطا فرمائیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہمیں فضیلت عنایت فرمائی ۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں مختص ہیں جو تمام جہان کا پالنہار ہے ، پھر فرماتا ہے کہ اے پیغمبر اعلان کر دو کہ مجھے حکم ملا ہے کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کا غلام میں بن جاؤں، پھر فرماتا ہے خبردار ہرگز ہرگز مشرکوں سے نہ ملنا ، یہ بھی اعلان کر دیجئے کہ مجھے خوف ہے اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب ہوں گے جو اس روز عذابوں سے محفوظ رکھا گیا یقین ماننا کہ اس پر رحمت رب نازل ہوئی، سچی کامیابی یہی ہے اور آیت میں فرمایا ہے جو بھی جہنم سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا اس نے منہ مانگی مراد پالی ۔ فوز کے معنی نفع مل جانے اور نقصان سے بچ جانے کے ہیں ۔