وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿17﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر تم کو خدا کوئی سختی پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر نعمت (وراحت) عطا کرے تو (کوئی اسکو روکنے والا نہیں) وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
قرآن حکیم کا باغی جہنم کا ایندھن
اللہ تعالٰی خبر دے رہا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک وہی ہے اپنی مخلوق میں جیسی وہ چاہے تبدیلیاں کرتا ہے اس کے احکام کو کوئی ٹال نہیں سکتا اس کے فیصلوں کو کوئی رد نہیں کر سکتا اسی آیت جیسی آیت (ما یفتح اللہ للناس من رحمتہ) الخ، ہے یعنی اللہ مقتدر اعلی جسے جو رحمت دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ، اور جس سے وہ روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا، اس آیت میں خاص اپنے نبی کو خطاب کر کے بھی یہی فرمایا ، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اے اللہ جسے تو دے اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ، اس کے بعد فرماتا ہے وہ اپنے بندوں پر قاہر و غالب ہے ، سب کی گردنین اس کے سامنے پست ہیں، سب بڑے اس کے سامنے چھوٹے ہیں ، ہر چیز اس کے قبضے اور قدرت میں ہے تمام مخلوق اس کی تابعدار ہے اس کے جلال اسکی کبریائی اس کی عظمت اسکی بلندی اس کی قدرت تمام چیزوں پر غالب ہے ہر ایک کا مالک وہی ہے ، حکم اسی کا چلتا ہے ، حقیقی شہنشاہ اور کامل قدرت والا وہی ہے ، اپنے تمام کاموں میں وہ باحکمت ہے ، وہ ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز سے با خبر ہے ، وہ جسے جو دے وہ بھی حکمت سے اور جس سے جو روک لے وہ بھی حکمت سے، پھر فرماتا ہے پوچھو تو سب سے بڑا اور زبردست اور بالکل سچا گواہ کون ہے؟ جواب دے کر مجھ میں تم میں اللہ ہی گواہ ہے ، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں اور جو تم مجھ سے کر رہے ہو اسے وہ خوب دیکھ بھال رہا ہے اور بخوبی جانتا ہے ، میری جانب اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ میں تم سب حاضرین کو بھی اس سے آگاہ کر دوں اور جسے بھی یہ پہنچی اس تک میرا پیغام پہنچ جائے ، جیسے اور آیت میں ہے آیت (ومن یکفر بہ من الاحذاب فالنار موعدہ) یعنی دنیا کے تمام لوگوں میں سے جو بھی اس قرآن سے انکار کرے اس کا ٹھکانا جہم ہی ہے ۔ حضرت محمد بن کعب فرماتے ہیں جسے قرآن پہنچ گیا اس نے گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا بلکہ گویا آپ سے باتیں کر لیں اور اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دین پیش کر دیا ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے اللہ کا پیغام اس کے بندوں کو پہنچاؤ جسے ایک آیت قرآنی پہنچ گئی اسے اللہ کا امر پہنچ گیا ۔ حضرت ربیع بن انس کا قول ہے اللہ کے نبی کے تمام تابعی لوگوں پر حق ہے کہ وہ مثل دعوت رسول کے لوگوں کو دعوت خیر دیں اور جن چیزوں اور کاموں سے آپ نے ڈرا دیا ہے یہ بھی اس سے ڈراتے رہیں مشرکو تم چاہے اللہ کے ساتھ اور معبود بھی بتاؤ لیکن میں تو ہرگز ایسا نہیں کروں گا جیسے اور آیت میں ہے آیت (فان شھدوا فلا تشھد معھم) یہ گو شہادت دیں لیکن تو ان کا ہمنوا نہ بن ۔ یہاں فرمایا تم صاف کہدو کہ اللہ تو ایک ہی ہے اور تمہارے تمام معبودان باطل سے میں الگ تھلگ ہوں ۔ میں ان سب سے بیزار ہوں کسی کا بھی روادار نہیں پھر فرماتا ہے یہ اہل کتاب اس قرآن کو اور اس نبی کو خوب جانتے ہیں جس طرح انسان اپنی اولاد سے واقف ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ آپ سے اور آپ کے دین سے واقف اور با خبر ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں یہ سب خبریں موجود ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی آپ کی نبوت کی خبریں ان کی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں آپ کی صفتیں ، آپ کا وطن، آپ کی ہجرت، آپ کی امت کی صفت ، ان تمام چیزوں سے یہ لوگ آگاہ ہیں اور ایسے صاف طور پر کہ جس میں کسی قسم کا شک شبہ نہیں ، پھر ایسے ظاہر باہر صاف شفاف کھلم کھلا امر سے بے ایمانی کرنا انہی کا حصہ ہے جو خود اپنا برا چاہنے والے ہوں اور اپنی جانوں کو ہلاک کرنے والے ہوں ، حضور کی آمد سے پہلے ہی نشان ظاہر ہو چکے جو نبی آپ سے پہلے آپ کی بشارتیں دیتا ہوا آیا ، پھر انکار کرنا سورج چاند کے وجود سے انکار کرنا ہے ، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھ لے ؟ اور فی الواقع اس سے بھی زیادہ ظالم کوئی نہیں جو سچ کو جھوٹ کہے اور اپنے رب کی باتوں اور اس کی اٹل حجتوں اور روشن دلیلوں سے انکار کرے، ایسے لوگ فلاح سے، کامیابی سے ، اپنا مقصد پانے سے اور نجات و آرام سے محروم محض ہیں۔