وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ ﴿93﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افترا کرے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے۔ حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب خدا نے نازل کی ہے اس طرح میں بھی بنا لیتا ہوں۔ اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (انکی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں۔ کہ نکالو اپنی جانیں آج تم کو ذلّت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے۔ اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مغضوب لوگ
اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں خواہ اس جھوٹ کی نوعیت یہ ہو کہ اللہ کی اولاد ہے یا اس کے کئی شریک ہیں یا یوں کہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے حالانکہ دراصل رسول نہیں ۔ خواہ مخواہ کہدے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ کوئی وحی نہ اتری ہو اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم نہیں ہو جو اللہ کی سچی وحی سے صف آرائی کا مدعی ہو ۔ چنانچہ اور آیتوں میں ایسے لوگوں کا بیان ہے کہ وہ قرآن کی آیتوں کو سن کر کہا کرتے تھے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کالم کہہ سکتے ہیں ، کاش کہ تو ان ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھتا جبکہ فرشتوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور وہ مار پیٹ کر رہے ہونگے ، یہ محاورہ مار پیٹ سے ہے ، جسیے ہابیل قابیل کے قصے میں آیت (لئن بسطت الی یدک ) ہے اور آیت میں (ویبسطوا الیکم ایدیھم والسنتھم بالسوء) ہے ضحاک اور ابو صالح نے بھی یہی تفسیر کی ہے ، خواہ قران کی آیت میں (یضربون وجوھھم وادبارھم ) موجود ہے یعنی کافروں کی موت کے وقت فرشتے ان کے منہ پر اور کمر پر مارتے ہیں ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ فرشتے ان کی جان نکالنے کیلئے انہیں مار پیٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکا لو ۔ کافروں کی موت کے وقت فرشتے انہیں عذابوں، زنجیروں، طوقوں کی ، گرم کھولتے ہوئے جہنم کے پانی اور اللہ کے غضب و غصے کی خبر سناتے ہیں جس سے ان کی روح ان کے بدن میں چھپتی پھرتی ہے اور نکلنا نہیں چاہتی ، اس پر فرشتے انہیں مار پیٹ کر جبراً گھسیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمہاری بدترین اہانت ہو گی اور تم بری طرح رسوا کئے جاؤ گے جیسے کہ تم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اس کے فرمان کو نہیں مانتے تھے اور اس کے رسولوں کی تابعداری سے چڑتے تھے ۔ مومن و کافر کی موت کا منظر جو احادیث میں آیا ہے وہ سب آیت (یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت) الخ، کی تفسیر میں ہے ، ابن مردویہ نے اس جگہ ایک بہت لمبی حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے واللہ اعلم، پھر فرماتا ہے کہ جس دن انہیں ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا اس دن ان سے کہا جائے گا کہ تم تو اسے بہت دور اور محال مانتے تھے تو اب دیکھ لو جس طرح شروع شروع میں ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اوب دوبارہ بھی پیدا کر دیا ۔ جو کچھ مال متا ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا سب تم وہیں اپنے پیچھے چھوڑ آ ئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہی ہے جسے تو نے کھاپی لیا وہ تو فنا ہو گیا یا تو نے پہن اوڑھ لیا وہ پھٹا پرانا ہو کر ضائے ہو گیا یا تو نے نام مولی پر خیرات کیا وہ باقی رہا اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو اوروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے جانے والا ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور رب العالمین اس سے دریافت فرمائے گا کہ جو تو نے جمع کیا تھا وہ کہاں ہے؟ یہ جواب دے گا کہ خوب بڑھا چڑھا کر اسے دنیا میں چھوڑ آیا ہوں ۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا اے ابن آدم پیچھے چھوڑا ہوا تو یہاں نہیں ہے البتہ آگے بھیجا ہوا یہاں موجود ہے اب جو یہ دیکھے گا تو کچھ بھی نہ پائے گا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ، پھر انہیں ان کا شرک یاد دلا کر دھمکایا جائے گا کہ جنہیں تم اپنا شریک سمجھ رہے تھے اور جن پر ناز کر رہے تھے کہ ہمیں بچا لیں گے اور نفع دیں گے وہ آج تمہارے ساتھ کیوں نہیں؟ وہ کہاں رہ گئے ؟ انہیں شفاعت کے لئے کیوں آگے نہیں بڑھاتے؟ حق یہ ہے کہ قیامت کے دن سارے جھوٹ بہتان افترا کھل جائیں گے ۔ اللہ تعالٰی سب کو سنا کر ان سے فرمائے گا جنہیں تم نے میرے شریک ٹھہرا رکھا تھا وہ کہاں ہیں؟ اور ان سے کہا جائے گا کہ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ نہ وہ تمہاری مدد کرتے ہیں نہ خود اپنی مدد وہ آپ کرتے ہیں ۔ تم تو دنیا میں انہیں مستحق عبادت سمجھتے رہے ۔ بینکم کی ایک قرأت بینکم بھی ہے یعنی تمہاری یکجہتی ٹوٹ گئی اور پہلی قرأت پر یہ معنی ہیں کہ جو تعلقات تم میں تھے جو وسیلے تم نے بنا رکھے تھے سب کٹ گئے معبودان باطل سے جو غلط منصوبے تم نے باندھ رکھے تھے سب برباد ہو گئے جیسے فرمان باری ہے آیت (اذ تبر الذین اتبعوا الخ، یعنی تابعداری کرنے والے ان سے بیزار ہوں گے جن کی تابعداری وہ کرتے رہے اور سارے رشتے ناتے اور تعلقات کٹ جائیں گے اس وقت تابعدار لوگ حسرت و افسوس سے کہیں گے کہ اگر ہم دنیا میں واپس جائیں تو تم سے بھی ایسے ہی بیزار ہو جائیں گے جیسے تم ہم سے بیزار ہوئے۔ اسی طرح اللہ تعالٰی انہیں ان کے کرتوت دکھائے گا ان پر حسرتیں ہوں گی اور یہ جہنم سے نہیں نکلیں گے اور آیت میں ہے جب صور پھونکا جائے گا تو آپس کے نسب منقطع ہو جائیں گے اور کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا اور آیت میں ہے کہ جن جن کو تم نے اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے دوستیاں رکھتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے اور تم ان کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے تو تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی بھی تمہارا مددگار کھڑا نہ ہو گا اور آیت میں ہے آیت (وقبیل ادعوا شرکاء کم) الخ، یعنی ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو آواز دو وہ پکاریں گے لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملے گا اور آیت میں ہے آیت (ویوم نحشرھم جمیعا) الخ، یعنی قیامت کے دن ہم ان سب کا حشر کریں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے شریک؟ اس بارے کی اور آیتیں بھی بہت ہیں ۔