فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿125﴾
‏ [جالندھری]‏ تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کریتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اس طرح خدا ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
جس پر اللہ کا کرم اس پہ راہ ہدایت آسان
اللہ کا ارادہ جسے ہدایت کرنے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہو جاتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت (افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ) الخ، یعنی اللہ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے اور انہیں اپنا نور عطا فرماتا ہے اور آیت میں فرمایا آیت (ولکن اللہ حبب الیکم الایمان و زینہ فی قلوبکم) الخ، اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کر دی اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دار بنا دیا اور کفر فسق اور نا فرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہیت ڈال دہی یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس کا دل ایمان و توہید کی طرف کشادہ ہو جاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ دان کون سا مومن ہے ؟ فرمایا سب سے زیادہ موت کو یاد رکھنے والا اور سب سے زیادہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے تیاریاں کرنے والا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کے دل میں ایک نور ڈال دیا جاتا ہے جس سے اس کا سینہ کھل جاتا ہے لوگوں نے اس کی نشانی درریافت کی تو فرمایا جنت کی طرف جھکنا اور اس کی جانب رغبت کام رکھنا اور دنیا کے فریب سے بھاگنا اور الگ ہونا اور موت کے آنے سے پہلے تیاریاں کرنا ضیقا کی ایک قرأت (ضیقا) بھی ہے (حرجا) کی دوسری (حرجا) بھی ہے یعنی گنہگار یا دونوں کے ایک ہی معنی یعنی تنگ جو ہدایت کے لئے نہ کھلے اور ایمان اس میں جگہ نہ پائے ، ایک مرتبہ ایک بادیہ نشین بزرگ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حرجہ کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا یہ ایک درخت ہوتا ہے جس کے پاس نہ تو چرواہے جاتے ہیں نہ جانور نہ وحشی ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے ایسا ہی منافق کا دل ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بھلائی جگہ پاتی ہی نہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اسلام باوجود آسان اور کشادہ ہونے کے اسے سخت اور تنگ معلوم ہوتا ہے خود قرآن میں ہے آیت (واما جعل علیکم فی الدین من حرج) اللہ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ لیکن منافق کا شکی دل اس نعمت سے محروم رہتا ہے اسے لا الہ الا اللہ کا اقرار ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے ، جیسے کسی پر آسمان پر جڑھائی مشکل ہو ، جیے وہ اس کے بس کی بات نہیں اسی طرح توحید و ایمان بھی اس کے قبضے سے باہر ہیں پس مردہ دل والے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح اللہ تعالٰی بے ایمانوں پر شیطان مقرر کر دیتا ہے جو انہیں بہکاتے رہتے ہیں اور خیر سے ان کے دل کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ نحوست ان پر برستی رہتی ہے اور عذاب ان پر اتر آتے ہیں۔