وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ﴿137﴾
‏ [جالندھری]‏ اسی طرح بہت سے مشرکوں کو ان کے شریکوں نے ان کے بچّوں کو جان سے مار ڈالنا اچھّا کر دکھایا ہے۔ تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر خلط ملط کردیں اور خدا چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
شیطان کے چیلے
جیسے کہ شیطانوں نے انہیں راہ پر لگا دیا ہے کہ وہ اللہ کے لئے خیرات کریں تو اپنے بزرگوں کا نام کا بھی حصہ نکالیں اسی طرح انہیں شیطان نے اس راہ پر بھی لگا رکھا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو بےوجہ قتل کر دیں ۔ کوئی اس وجہ سے کہ ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے؟ کوئی اس وجہ سے کہ ان بیٹیوں کی بنا پر ہم کسی کے خسر بنیں گے وغیرہ۔ اس شیطانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت اور دین کی الجھن ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بدترین طریقہ ان میں پھیل گیا تھا کہ لڑکی کے ہونے کی خبر ان کے چہرے سیاہ کر دیتی تھی ان کے منہ سے یہ نکلتا نہ تھا کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی ، قرآن نے فرمایا کہ ان بےگناہ زندہ درگور کی ہوئی بچیوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کر دی گئیں پس یہ سب وسوسے شیطانی تھے لیکن یہ یاد رہے کہ رب کا ارادہ اور اختیار اس سے الگ نہ تھا اگر وہ چاہتا تو مشرک ایسا نہ کر سکتے ۔ لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا اور اس کی باز پرس سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ پس اے نبی تو ان سے اور ان کی اس افترا پردازی سے علیحدگی اختیار کر لو اللہ خود ان سے نمٹ لے گا ۔