قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ ۚ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿140﴾
‏ [جالندھری]‏ جن لوگوں نے اپنی اولاد کو بےوقوفی سے بےسمجھی سے قتل کیا اور خدا پر افترا کرکے اس کی عطا کی ہوئی روزی کو حرام ٹھہرایا ہو گھاٹے میں پڑگئے۔ وہ بےشبہ گمراہ ہیں اور ہدایت یافتہ نہیں ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اولاد کے قاتل 
اولاد کے قاتل اللہ کے حلال کو حرام کرنے والے دونوں جہان کی بربادی اپنے اوپر لینے والے ہیں ۔ دنیا کا گھاٹا تو ظاہر ہے ان کے یہ دونوں کام خود انہیں نقصان پہنچانے والے ہیں بے اولاد یہ ہو جائیں گے مال کا ایک حصہ ان کا تباہ ہو جائے گا ۔ رہا آخرت کا نقصان سو چونکہ یہ مفتری ہیں، کذاب ہیں، وہاں کی بدترین جگہ انہیں ملے گی ، عذابوں کے سزاوار ہوں گے جیسے فرمان ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے نجات سے محروم کامیابی سے دور ہیں یہ دنیا میں گو کچھ فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو ہمارے بس میں آئیں گے پھر تو ہم انہیں سخت تر عذاب چکھائیں گے کیونکہ یہ کافر تھے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اگر تو اسلام سے پہلے کے عربوں کی بد خصلتی معلوم کرنا چاہے تو سورۃ انعام کی ایک سو تیس آیات کے بعد آیت (قد خسر الذین) الخ، والی روایت پڑھو (بخاری کتاب مناقب قریش)