فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ ﴿147﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر یہ لوگ تمہاری تکذیب کریں تو کہہ دو تمہارا پروردگار صاحب رحمت وسیع ہے۔ مگر اس کا عذاب گنہگار لوگوں سے نہیں ٹلے گا ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مشرک ہو یا کافر توبہ کر لے تو معاف! 
اب بھی اگر تیرے مخالف یہودی اور مشرک وغیرہ تجھے جھوٹا بتائیں تو بھی تو انہیں میری رحمت سے مایوس نہ کر بلکہ انہیں رب کی رحمت کی وسعت یاد دلاتا کہ انہیں اللہ کی رضا جوئی کی تبلیغ ہو جائے ، ساتھ ہی انہیں اللہ کے اٹل عذابوں سے بچنے کی طرف بھی متوجہ کر ۔ پس رغبت رہبت امید ڈر دونوں ہی ایک ساتھ سنا دے ۔ قرآن کریم میں امید کے ساتھ خوف اکثر بیان ہوتا ہے اسی سورت کے آخر میں فرمایا تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور غفور و رحیم بھی ہے اور آیت میں ہے (ان ربک لذوا مغفرۃ للناس علی ظلمھم) الخ، تیرا رب لوگوں کے گناہوں پر انہیں بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت تر عذاب کرنیوالا بھی ہے ایک آیت میں ارشاد ہے میرے بندوں کو میرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے بڑے ہی درد ناک ہونے کی خبر پہنچا دے اور جگہ ہے وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والاے نیز کئی آیتوں میں ہے تیرے رب کی پکڑ بڑی بھاری اور نہایت سخت ہے ۔ وہی ابتداء کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا وہ غفور ہے ، ودود ہے ، بخشش کرنے والا ہے ، مہربان اور محبت کرنے والا ہے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔