هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ ﴿158﴾
‏ [جالندھری]‏ یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ انکے پاس فرشتے آئیں۔ یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں؟ (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے (تو گناہوں سے توبہ کرنا مفید نہ ہوگا)۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی کرتے ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
قیامت اور بےبسی 
اللہ تعالٰی کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے؟ جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی ۔ وہ بھی وقت ہو گا جب ایمان بھی بےسود اور توبہ بھی بیکار، بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہے ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور حدیث ہے جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بے ایمان کو ایمان لانا، خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہو گا ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، دجال کا آنا، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا۔ ایک اور روایت میں اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے اور حدیث میں ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اس کی توبہ مقبول ہے ۔ حضرت ابوذر سے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوجھا جانتے ہو یہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں فرمایا عرش کے قریب جا کر سجدے میں گر پڑتا ہے اور ٹھہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اجازت ملے اور کہا جائے لوٹ جا قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہدیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا یہی وہ وقت ہو گا کہ ایمان لانا بےنفع ہو جائے گا۔ ایک مرتبہ لوگ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں حضور بھی تشریف لے آئے اور فرمانے لگے قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج کا آنا، عیسیٰ بن مریم کا آنا اور دجال کا نکلنا، مشرق ، مغرب اور جزیرہ عرب میں تین جگہ زمین کا دھنس جانا اور عدن کے درمیان سے ایک زبر دست آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانک لے جائے گی رات دن ان کے پیچھے ہی پیچھے رہ گی (مسلم وغیرہ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا نشان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ رات بہت لمبی ہو جائے گی بقدر دو راتوں کے لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں ہوں گے اور تہجد گذاری میں بھی ۔ ستارے اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہوں گے پھر لوگ سو جائیں گے پھر اٹھیں گے کام میں لگیں گے پھر سوئیں گے پھر اٹھیں گے لیکن دیکھیں گے کہ نہ ستارے ہٹے ہیں نہ سورج نکلا ہے کروٹیں دکھنے لگیں گی لیکن صبح نہ ہو گی اب تو گھبرا جائیں گے اور دہشت زدہ ہو جائیں گے منتظر ہوں گے کہ کب سورج نکلے مشرق کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہوں گے کہ اچانک مغرب کی طرف سے سورج نکل آئے گا اس وقت تو تمام روئے زمین کے انسان مسلمان ہو جائینگے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہو گا ۔ (ابن مردویہ) ایک حدیث میں حضور کا اس آیت کے اس جملے کو تلاوت فرما کر اس کی تفسیر میں سورج کا مغرب سے نکلنا فرمانا بھی ہے ، ایک روایت میں ہے سب سے پہلی نشانی یہی ہو گی اور حدیث میں ہے اللہ تعالٰی نے مغرب کی طرف ایک بڑا دروازہ کھول رکھا ہے جس کا عرض ستر سال کا ہے یہ توبہ کا دروازہ ہے یہ بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے اور حدیث میں ہے لوگوں پر ایک رات آئے گی جو تین راتوں کے برابر ہو گی اسے تہجد گذار جان لیں گے یہ کھڑے ہوں گے ایک معمول کے مطابق تہجد پڑھ کر پھر سو جائیں گے پھر اٹھیں گے اپنا معمول ادا کر کے پھر لیٹیں گے لوگ اس لمبائی سے گھبرا کر چیخ پکار شروع کر دین گے اور دوڑے بھاگے مسجدوں کی طرف جائیں گے کہ نا گہاں دیکھیں گے کہ سورج طلوع ہو گیا یہاں تک کہ وسط آسمان میں پہنچ کر پھر لوٹ جائے گا اور اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے طلوع ہو گا، یہی وہ وقت ہے جس وقت ایمان سود مند نہیں اور روایت میں ہے کہ تین مسلمان شخص مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مروان ان سے کہہ رہے تھے کہ سب سے پہلی نشانی دجال کا خروج ہے یہ سن کر یہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے اور یہ بیان کیا آپ نے فرمایا اس نے کچھ نہیں کہا مجھے حضور کا فرمان خوب محفوظ ہے کہ سب سے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے نکلنا ہے اور دآبتہ الارض کا دن چڑھے ظاہر ہونا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو اسی کے بعد دوسری ظاہر ہو گی ، حضرت عبداللہ کتاب پڑھتے جاتے تھے فرمایا میرا خیال ہے کہ پہلے سورج کا نشان ظاہر ہو گا وہ غروب ہوتے ہی عرش تلے جاتا ہے اور سجدہ کر کے اجازت مانگتا ہے اجازت مل جاتی ہے جب مشیت الٰہی سے مغرب سے ہی نکلنا ہو گا تو اس کی بار بار کی اجازت طلبی پر بھی جواب نہ ملے گا رات کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو گا اور یہ سمجھ لے گا کہ اب اگر اجازت ملی بھی تو مشرق میں نہیں پہنچ سکتا تو کہے گا کہ یا اللہ دنیا کو سخت تکلیف ہو گی تو اس سے کہا جائے گا یہیں سے طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے ہی نکل آئے گا پھر حضرت عبداللہ نے یہی آیت تلات فرمائی، طبرانی میں ہے کہ جب سورج مغرب سے نکلے گا ابلیس سجدے میں گر پڑے گا اور زور زور سے کہے گا الہی مجھے حکم کر میں مانوں گا جسے تو فرمائے میں سجدہ کرنے کیلئے تیار ہوں اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہو جائے گی اور کہے گی یہ ہائے وائے کیسی ہے؟ وہ کہے گا مجھے یہیں تک کی ڈھیل دی گئی تھی، اب وہ آخری وقت آ گیا پھر صفا کی پہاڑی کے غار سے دابتہ الارض نکلے گا اس کا پہلا قدم انطاکیہ میں پڑے گا وہ ابلیس کے پاس پہنچے گا اور اسے تھپڑ مارے گا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کی سند بالکل ضعیف ہے ممکن ہے کہ یہ ان کتابوں میں سے حضرت عبداللہ بن عمرو نے لی ہو جن کے دو تھیلے انہیں یرموک کی لڑائی والے دن ملے تھے ۔ ان کا فرمان رسول ہونا ناقابل تسلیم ہے اللہ اعلم ۔ حضور فرماتے ہیں ہجرت منقطع نہ ہو گی جب تک کہ دشمن برسر پیکار رہے ۔ ہجرت کی دو قسمیں ہیں ایک تو گناہوں کو چھوڑنا دوسرے اللہ اور اس کے رسول کے پاس ترک وطن کر کے جانا یہ بھی باقی رہے گا جب تک کہ توبہ قبول ہوتی ہے اور توبہ قبول ہوتی رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے ۔ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی پھر جو کچھ جس حال میں ہے اسی پر مہر لگ جائے گی اور اعمال بےسود ہو جائیں گے ۔ ابن مسعود کا فرمان ہے کہ بہت سے نشانات گذر چکے صرف چار باقی رہ گئے ہیں، سورج کا نکلنا دجال دابتہ الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا جس علامت کے ساتھ اعمال ختم ہو جائیں گے وہ طلوع شمس منجانب مغرب ہے ۔ ایک طویل مرفوع غیب منکر حدیث میں ہے کہ اس دن سورج چاند ملے جلے طلوع ہوں گے آدھے آسمان سے واپس چلے جائیں گے پھر حسب عادت ہو جائینگے ۔ اس حدیث کا تو مرفوع ہونے کا دعوی اس حدیث کے موضوع ہونے کا ثبوت ہے۔ ہاں ابن عباس یا وہیب بن منبہ پر موقوف ہونے کی حیثیت سے ممکن ہے موضوع کی گنتی سے نکل جائے واللہ اعلم ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں قیامت کی پہلی نشانی کے ساتھ ہی اعمال کا کاتمہ ہے اس دن کسی کافر کا مسلمان ہونا بےسود ہو گا ، ہاں مومن جو اس سے پہلے نیک اعمال والا ہو گا وہ بہتری میں رہے گا اور جو نیک عمل نہ ہو گا اس کی توبہ بھی اس وقت مقبول نہ ہو گی جیسے کہ پہلے حدیثیں گذر چکیں برے لوگوں کے نیک اعمال بھی اس نشان عظیم کو دیکھ لیں گے بعد کام نہ آئیں گے ۔ پھر کافروں کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اچھا تم انتظار میں ہی ہوتا آنکہ توبہ کے اور ایمان کے قبول نہ ہونے کا وقت آ جائے اور قیامت کے زبردست آثار ظاہر ہو جائیں جیسے اور آیت میں ہے (ھل ینظرون الا الساعتہ) الخ، قیامت کے اچانک آ جانے کا ہی انتظار ہے اس کی بھی علامات ظاہر ہو چکی ہیں اس کے آچکنے کے بعد نصیحت کا وقت کہاں؟ اور آیت میں ہے (فلما راوا باسنا) ہمارے عذابوں کا مشاہدہ کر لینے کے بعد کا ایمان اور شرک سے انکار بےسود ہے ۔