وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ ﴿4﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب (یا تو رات کو) آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جبکہ وہ قیلولہ (یعنی دوپہر کو آرام) کرتے تھے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
سابقہ باغیوں کی بستیوں کے کھنڈرات باعث عبرت ہیں
ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں کی مخالفت کرتے تھے انہیں جھٹلاتے تھے تم سے پہلے ہم ہلاک کر چکے ہیں ۔ دنیا اور آخرت کی ذلت ان پر برس پڑی ، جیسے فرمان ہے تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا ، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق نے انہیں تہو بالا کر دیا ، ایک اور آیت میں ہے ، بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے غارت کر دیا جو اب تک الٹی پڑی ہیں اور جگہ ارشاد ہے بہت سے اتراتے ہوئے لوگوں کے شہر ہم نے ویران کر دیئے دیکھ لو کہ اب تک ان کے کھنڈرات تمہارے سامنے ہیں جو بہت کم آباد ہوئے ۔ حقیقتاً وارث و مالک ہم ہی ہیں ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آ گئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت، کہیں رات کے سونے کے وقت ، چنانچہ ایک آیت میں ہے (افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وھم نائمون اوامن اھل القری ان یاتیھم باسنا ضحی وھم یلعبون) یعنی لوگ اس سے بےخوف ہو گئے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے راتوں رات اچانک ہمارا عذاب آ جائے ؟ یا انہیں ڈر نہیں کہ دن دیہاڑے دوپہر کو ان کے آرام کے وقت ان پر ہمارا عذاب آ جائیں ؟ اور آیت میں ہے کہ مکاریوں کی وجہ سے ہماری نافرمانیاں کرنے والے اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ یا ان کے پاس عذاب الٰہی اس طرح آ جائے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے یا اللہ انہیں ان کی بےخبری میں آرام کی گھڑیوں میں ہی پکڑ لے کوئی نہیں جو اللہ کو عاجز کر سکے ، یہ تو رب کی رحمت و رافت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں ، عذاب رب آ جانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے لیکن اس وقت کیا نفع ؟ اسی مضمون کو آیت (وکم قصمنا) میں بیان فرمایا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا انہیں عذاب نہیں کرتا، عبدالملک سے جب یہ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالٰی بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا انہیں عذاب نہیں کرتا تو آپ نے یہ آیت (فما کان دعوھم) الخ، پڑھ سنائی پھر فرمایا امتوں سے بھی، ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہو گا، جیسے فرمان ہے (ویوم ینادیھم فیقول ماذا اجبتم المرسلین) یعنی اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟ اس آیت میں امتوں سے سوال کیا جانا بیان کیا گیا ہے اور آیت میں ہے (یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم) الخ، رسولوں کو قیامت کے دن اللہ تعالٰی جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں غیب کا جاننے والا تو ہی ہے پس امت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک با اختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے ۔ بادشاہ سے اسکی رعایا کا ہر آدمی سے اس کی اہل و عیال کا ، ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا ، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہو گا ۔ راوی حدیث حضرت طاؤس نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر آیت کی تلاوت کی ۔ اس زیادتی کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم کی نکالی ہوئی بھی ہے اور زیادتی ابن مردویہ نے نقل کی ہے ، قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے خبر دی جائے گی ۔ اللہ ہر شخص کے اعمال سے با خبر ہے اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے ۔ آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ۔ زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ ہوتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے ۔ تر و خشک چیز اس کے پاس کھلی کتاب میں موجود ہے ۔