وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿8﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے توجن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہونگے وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
میزان اور اعمال کا دین
قیامت کے دن نیکی بدی انصاف و عدل کے ساتھ تولی جانے کی ، اللہ تعالٰی کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت (ونضع الموازین القسط لیوم القیامتہ) الخ، قیامت کے دن ہم عدل کی ترازو رکھیں گے، کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں اور آیت میں ہے "اللہ تعالٰی ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ سورۃ قارعہ میں فرمایا جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اس کا ٹھکانا (ہاویہ) ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے اور آیت میں ہے (فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ والا یتساءلون) یعنی نفحہ پھونک دیا جائے گا سارے رشتے ناتے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے، کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا ۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پالی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تو لے جائیں گے کوئی کہتا ہے نامہ اعمال تو لے جائیں گے ۔ کوئی کہتا ہے خود عمل کرنے والے تو لے جائیں گے ۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں کبھی عمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے واللہ اعلم ۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں ۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالٰی انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی اور حدیث میں ہے کہ قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ یہ کہے گا میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا۔ حضرت براء والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت خوشبودار آئے گا یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں ۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنا دور تک نظر پہنچے ۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر (لا الہ الا اللہ) ہو گا ۔ یہ کہے گا یا اللہ یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ، اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے (ترمذی) تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے حدیث میں ہے ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (فلا نقیم لھم یوم القیامتہ وزنا) ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں ہے کہ حضور نے فرمایا ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے ۔