وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ ﴿10﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہمیں نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے سامان معیشت پیدا کئے (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ تعالٰی کے احسانات 
اللہ تعالٰی اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کیلئے بنائی ۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں اس میں چشمے جاری کئے اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سے نفع کی چیزیں اس لئے پیدائش فرمائیں ۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لئے کھیت اور باغات پیدا کئے ۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے ۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے ۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گذاری نہیں کرتے ایک آیت میں فرمان ہے (وان تعدوا نعمتہ اللہ لا تحصوھا ان الانسان لظلوم کفار) یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں ۔ لیکن انسان بڑا ہی نا انصاف اور نا شکرا ہے معایش تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اعرج معایش پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے اس لئے کہ (معایش) جمع ہے (معیشتہ) کی ۔ اس کا باب (عاش یعیش عیشا) ہے (معیشتہ) کی اصل (معیشتہ) ہے ۔ کسر ہے پر تقلیل تھا نقل کر کے ماقیل کو دیا (معیشتہ) ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسر ہے پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا پس مفاعل کے وزن پر (معایش) ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں یا اصلی ہے ۔ بخلاف مدائین، صہائف اور بصائر کے جو مدینہ ، صحیفہ اور بصیرہ کی جمع ہے باب مدن صحف اور ابصر سے ان میں چونکہ یا زائد ہے اس لئے ہمزہ دی جاتی ہے اور مفاعل کے وزن پر جمع آتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔