وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿65﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اسی طرح قوم عاد کی طرف انکے بھائی ھود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ بھائیوں خدا ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم ڈرتے نہیں؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
ہود علیہ السلام اور ان کا رویہ!
فرماتا ہے کہ جیسے قوم نوح کی طرف حضرت نوح کو ہم نے بھیجا تھا قوم عاد کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو ہم نے نبی بنا کر بھیجا یہ لوگ عاد بن ارم بن عوص بن سام بن نوح کی اولاد تھے ۔ یہ عاد اولیٰ ہیں ۔ یہ جنگل میں ستونوں میں رہتے تھے۔ فرمان ہے آیت (الم تر کف فعل ربک بعاد ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد) یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد ارم کے ساتھ تیرے رب نے کیا کیا؟ جو بلند قامت تھے دوسرے شہروں میں جن کی مانند لوگ پیدا ہی نہیں کئے گئے ۔ یہ لوگ بڑے قوی طاقتور اور لانبے چوڑے قد کے تھے جیسے فرمان ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے زیادہ قوی کون ہے؟ کیا انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا یقینا ان سے زیادہ طاقت والا ہے ۔ وہ ہماری آیتوں سے انکار کر بیٹھے ان کے شہر یمن میں احقاف تھے، یہ ریتلے پہاڑ تھے ۔ حضرت علی نے حضرت موت کے ایک شخص سے کہا کہ تو نے ایک سرخ ٹیلہ دیکھا ہو گا جس میں سرخ رنگ کی راکھ جیسی مٹی ہے اس کے آس پاس پیلو اور بیری کے درخت بکثرت ہیں وہ ٹیلہ فلاں جگہ حضر موت میں ہے اس نے کہا امیر المومنین آپ تو اس طرح کے نشان بتا رہے ہیں گویا آپ نے بچشم خود دیکھا ہے آپ نے فرمایا نہیں دیکھا تو نہیں لیکن ہاں مجھ تک حدیث پہنچی ہے کہ وہیں حضرت ہود علیہ السلام کی قبر ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستیاں یمن میں تھیں اسی لئے ان کے پیغمبر وہیں مدفون ہیں آپ ان سب میں شریف قبیلے کے تھے اس لئے کہ انبیاء ہمیشہ حسب نسب کے اعتبار سے عالی خاندان میں ہی ہوتے رہے ہیں لیکن آپ کی قوم جس طرح جسمانی طور سے سخت اور زوردار تھی اسی طرح دلوں کے اعتبار سے بھی بہت سخت تھی جب اپنے نبی کی زبانی اللہ کی عبادت اور تقویٰ کی نصیحت سنی تو لوگوں کو بھاری اکثریت اور ان کے سردار اور بڑے بول اٹھے کہ تو تو پاگل ہو گیا ہے ہمیں اپنے بتوں کی ان خوبصورت تصویروں کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے ۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے ۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی دعوت کیوں دی ؟ حضرت ہود نے انہیں جواب دیا کہ مجھ میں تو بیوقوفی کی بفضلہ کوئی بات نہیں ۔ میں تو تمہیں کلام اللہ پہنچا رہا ہوں تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور امانت داری سے حق رسالت ادا کر رہا ہوں ۔ یہی وہ صفتیں ہیں جو تمام رسولوں میں یکساں ہوتی ہیں یعنی پیغام حق پہنچانا ، لوگوں کی بھلائی چاہنا اور امانتداری کا نمونہ بننا۔ تم میری رسالت پر تعجب نہ کرو بلکہ اللہ کا شکر بجا لاؤ کہ اس نے تم میں سے ایک فرد کو اپنا پیغمبر بنایا کہ وہ تمہیں عذاب الٰہی سے ڈراوے۔ تمہیں رب کے اس احسان کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اس نے تمہیں ہلاک ہونے والوں کے بقایا میں سے بنایا ۔ تمہیں باقی رکھا اتنا ہی نہیں بلکہ تمہیں قوی ہیکل ، مضبوط اور طاقتور کر دیا ۔ یہی نعمت حضرت طالوت پر تھی کہ انہیں جسمانی اور علمی کشادگی دی گئی تھی ۔ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ نجات حاصل کر سکو۔